ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف قوموں کیلئے شکنجہ

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے 27 میں سے 26 مطالبات پر عمل درآمد، قانون سازی اور اقدامات کے باوجود پاکستان کو مزید ایک برس کے لیے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھے جانے پر اتفاق ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان سے مزید سات مطالبات بھی کیے گئے ہیں، جو کہ منی لانڈرنگ پر مزید سخت اقدامات لینے سے متعلق ہیں، پاکستان نے ان سات مطالبات پر ایک سال میں عمل درآمد کرنا ہے۔

ایف ٹی ایف کے صدر نے مزید مطالبات سامنے رکھتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے بہت سے مطالبات پر عمل کیا ہے، جو کہ خوش آئند ہے، تاہم اب بھی انصاف کے شعبے میں اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل کیے جانے والے 27 مطالبات میں دہشت گردی کی فنڈنگ، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے، منی لانڈرنگ کو روکنے نیز انصاف کے نظام کو بہتر بنانے سے متعلق شرائط شامل تھیں، جس پر گذشتہ دو برسوں میں حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو ہم نے دیکھا۔ جس میں بیکنگ اصلاحات، ٹرسٹ، این جی او، اوقاف اور ان کی مالیات کے سلسلے میں قانون سازی شامل ہیں۔

گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے اگرچہ پاکستان پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی، تاہم پاکستان پر بلیک لسٹ کی تلوار لٹکتی رہے گی اور ذرا سی بھی سستی ہمیں دوبارہ بلیک لسٹ کی جانب لے جا سکتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے لیے پاکستان کے نمائندے حماد اظہر کے مطابق ہمارے لیے اب پیش کردہ سات نکات پر عمل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے، کیونکہ ہم نے 2018ء کی ابتداء میں پانچ نکات پر عمل درآمد سے آغاز کیا تھا اور آج ایف اے ٹی ایف کے 26 مطالبات پر عمل درآمد کرچکے ہیں، جن میں سے اکثر کا تعلق منی لانڈرنگ سے ہی ہے۔ حماد اظہر کے مطابق موجودہ اجلاس میں بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ہے، جس نے ایک ٹیکنیکل فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

 یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں آنے کی ضرورت اپنی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ہے، کیونکہ ہمارے ملکی وسائل کا ایک بڑا حصہ بیرونی قرضوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں آتا ہے تو دنیا کے بہت سے ادارے ہمیں قرضے فراہم نہیں کریں گے۔ ایران اور شمالی کوریا ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ہیں، تاہم چونکہ ان دونوں ممالک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں، لہذا وہ اس بلیک لسٹ کو قابل اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ اسی طرح پاکستان نے حال ہی میں آئی ایم ایف پر بھی واضح کیا ہے کہ وہ عوام پر مزید ٹیکسوں اور بجلی کے ٹیرف میں اضافے کا بوجھ نہیں ڈال سکتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف ہو یا آئی ایم ایف کے قرضوں کی دستیابی کا مسئلہ، ان دونوں معاملات میں امریکا سے پاکستان کے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں، شاید پاکستان کی ایف اے ٹی ایف میں صورتحال اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی دستیابی کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی امریکہ نے ہم سے ایک مرتبہ پھر فوجی اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا۔

اسے بخوبی اندازہ ہے کہ ان دونوں معاملات میں پاکستان کو امریکی حمایت کی ضرورت ہے اور وہ اس نازک صورتحال میں امریکی مخالفت مول نہیں لے سکتا۔ امریکی حکومت کے وہم کے برعکس ہم نے دیکھا کہ وزیر اعظم پاکستان نے Absolutely Not کا نعرہ مستانہ بلند کرکے امریکہ کو افغان جنگ جاری رکھنے کے لیے اڈوں کی فراہمی سے صاف انکار کیا، جس کی شاید امریکی توقع نہیں کر رہے تھے۔ بہرحال اس انکار کا ایک نتیجہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کے موجودہ اجلاس کی صورت میں مل چکا ہے۔ 27 میں سے 26 شرائط پر ان شرائط کی روح کے مطابق عمل کے باوجود ہمیں پاسنگ مارکس بھی نہیں ملے اور ہم آج بھی گرے لسٹ میں ہیں، اسی طرح اگلا نتیجہ یقیناً آئی ایف کے قرضوں کی فراہمی میں تاخیر یا تعطل کی صورت میں ہمارے سامنے آنے والا ہے۔ اسی لمحے کو شاعر نے ان الفاظ میں قلمبند کیا ہے:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

یہ ٹیکنیکل ادارے اور معاشی شرائط اقوام کو غلام رکھنے کے نئے حربے ہیں، جن سے آزادی کے بغیر کسی قوم کی آزادی اور خود مختاری ایک خواب ہی ہے۔ ہم حقیقی معنوں میں اسی وقت آزاد اور خود مختار قوم بن سکتے ہیں، جب ہم معاشی طور پر آزاد اور خود مختار ہوں اور ہمیں اپنی معیشت چلانے کے لیے بیرونی قرضوں کی احتیاج کم سے کم ہو۔ عمران خان نے افغان جنگ میں امریکی مطالبے سے صاف انکار کے بعد امریکی پریس کے ذریعے اپنی نہ کی وجوہات کو بیان کرنا شروع تو کیا ہے، جس کا اثر کب تک ہوتا ہے، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، تاہم یہی پاکستان کی خود مختار خارجہ پالیسی کی جانب ہمارا پہلا قدم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم یہ قدم کیوں نہ اٹھائیں کہ جب ہم امریکی جنگ میں شامل ہو کر ستر ہزار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں اور ہماری معیشت 150 بلین امریکی ڈالر کا نقصان اٹھا چکی ہے۔ ہم امریکی امداد کے لالچ میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر اسی جہنم میں نہیں جھونک سکتے۔ یہ خوش آئند تبدیلی ہے، جس پر ہمیں بحیثیت قوم کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز