اگر یوم القدس نہ ہوتا
تحریر: سید اسد عباس
نوید حیدر ہاشمی کا یہ شعر ہمارے اس سوال کا جواب ہے: کچھ دیر فرض کیجیے یہ مجلسیں نہ ہوں سارا جہاں حسین کا قاتل دکھائی دے مجالس برپا کرکے کوئی بھی امام حسینؑ کی مدد نہیں کرسکتا ہے، واقعہ کربلا گزرے ایک مدت بیت گئی، تاہم وہ مشن جاری ہے۔ آج مجلس بپا کرنے والا، اس میں شرکت کرنے والا اس امر کا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ میں حسین علیہ السلام کے ساتھ ہوں نیز یہ کہ ان کے دشمن کے لشکر سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجالس میں شریک شخص یہ بھی اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ آئندہ اگر واقعہ کربلا جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو میں حسینی لشکر میں کھڑا ہوں گا۔ یہی حال یوم القدس کا ہے۔ یوم القدس کے پروگراموں میں شرکت کرنے والا، ان کا انعقاد کرنے والا اس امر کا اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ میں مظلوم فلسطینیوں کے ہمراہ ہوں، میں مظلوموں کے ہمراہ ہوں، میرا ظالموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امام خمینی نے جب یوم القدس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا تو یقیناً اس کے پیچھے عاشورائی حکمت کار فرما تھی۔ امام خمینی کہا کرتے تھے “ما ہرچہ داریم از سید الشہداء داریم” یعنی ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، سید الشہداء سے ہے۔
یوم القدس، یوم اللہ، یوم فلسطین، یوم الاسلام، یوم مظلومین، یوم مستضعفین منانا جہاں مسلمان ہونے کا تقاضا ہے، وہیں عاشوارئی ہونے کا تقاضا ہے۔ مظلوم کی حمایت اور کربلا لازم و ملزوم ہیں۔ امام خمینی نے یوم القدس کا اعلان 1979ء میں کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دن کو منانے کی تجویز اس وقت کے ایران کے وزیر خارجہ ابراہیم یزدی نے امام خمینی کو دی۔ امام خمینی نے یوم القدس منانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: “میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو “یوم القدس” قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔”
اس سے قبل برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے 1936ء میں ایک روز یوم یکجہتی فلسطین منایا تھا، تاہم وہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی ہند تک فلسطین کے حق میں اٹھارہ قراردادیں پاس کیں۔ اہم ملاقاتیں اور دورہ جات اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ ہم اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت کے فیصلے کی مخالفت کریں گے۔ جس پر پاکستان آج بھی قائم ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر فقط ایک ملک میں سفر نہیں کیا جاسکتا اور وہ اسرائیل ہے، ہم اس پاسپورٹ پر ہندوستان تو جا سکتے ہیں، اسرائیل نہیں۔ تاریخی طور پر ہم جانتے ہیں کہ 1948ء میں جب برطانوی مینڈیٹ کے تحت فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی غاصب ریاست کو وجود بخشا گیا، اس وقت تقریباً سبھی مسلمانوں کی اسرائیل کے بارے رائے ایک ہی تھی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کے وجود کو کوئی مسلمان قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ عرب ممالک نے تو اسرائیل کے ساتھ جنگیں بھی لڑیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان مصلحتوں کا شکار ہونے لگے۔ اسرائیل کے وجود کو ناپاک کہنے والے اسرائیل سے معاشی و اقتصادی تعلقات قائم کرنے لگے۔ اسرائیلی سفارتخانے کھلنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ پہلے خفیہ دفاترا ور پھر کھلے عام روابط شروع ہوگئے۔ لاکھوں فلسطینی پناہ گزین، مقبوضہ علاقے، امت مسلمہ کا وقار سب پس پشت ڈال دیا گیا۔
بیسویں صدی کی پچاس کی دہائی سے 2023ء تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آج عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیمی انجام دے رہی ہیں۔ ملکی مفادات کو امت کے مفادات پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر یوم القدس کی صورت میں حمایت فلسطین کی یہ کاوش موجود نہ ہوتی تو فلسطینی کس قدر تنہاء ہوچکے ہوتے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ گذشتہ 75 برسوں سے فلسطینی جن مظالم اور لاپرواہیوں سے گزر رہے ہیں، اگر حمایت فلسطین کی یہ معدوم سی چنگاری نہ ہوتی تو یقیناً وہ مایوس ہوچکے ہوتے، مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطینی پرامید ہیں۔ آج وہ اپنے حق کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ عزم اور حوصلے سے میدان عمل میں اترتے ہیں۔ اسرائیلی مظالم کا جواب اب غلیلوں سے نہیں میزائلوں سے دیا جاتا ہے۔ جارحیت اور ظلم کا سلسلہ جو مہینوں پر محیط ہوتا تھا، اب گھنٹوں سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ فلسطینی سڑکوں پر لڑی جانے والی جنگ اب تل ابیب کی گلیوں اور بازاروں تک پہنچ چکی ہے۔
فلسطینیوں کے اس حوصلے، عزم اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد میں یوم القدس کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔ یوم القدس نے ہی ان کو بتایا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت آج بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کے حق کو حق جانتی ہے، یوم القدس فلسطینی مسلمانوں کو ہی نہیں دنیا بھر کے مستضعف مسلمانوں کو اس امر کا یقین دلاتا ہے کہ وہ تنہاء نہیں ہیں۔ یوم القدس، یوم کشمیر ہے، یہ یوم افغانستان ہے، یہ یوم یمن ہے، یہ یوم مظلومین ہے۔ اسی لیے امام خمینی نے یوم القدس کو یوم اللہ، یوم اسلام قرار دیا تھا۔ خداوند کریم ہم سب کو فرمان امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی روشنی میں مظلوم کا حامی اور ظالم کا مخالف بنے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Share this content: