امت اسلامیہ کا نوحہ
امت مظلوم کے کس درد کا نوحہ لکھوں۔ وسائل کی فراوانی کے باوجود مسلم عوام کی کسمپرسی کا حال کہوں، یا سوا ارب سے زیادہ آبادی کے حامل مسلمان ممالک کے نا اہل حکمرانوں کی عیاشیوں کا فسانہ چھیڑوں، امت اسلامیہ کی علمی و فکری پسماندگی کی حکایت بیان کروں یا آپس میں دست و گریباں مسلمانوں کی بپتاکہوں۔ایک جانب پاکستانی حکمران ہیںکہ جنہوں نے اپنے تین بے جرم و خطا شہریوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کواپنے ہی قانون کا سہارا لیتے ہوئے فرار کرایاتو دوسری جانب لیبیا اور خلیجی ریاستوں کے حکمران ہیں جو اپنے ہی نہتے عوام کو بارود اور بندوق کے زور پر خاموش کرنے کے درپے ہیں۔
ان حکمرانوں کی حرکات دیکھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے ان کا اپنے ملک اور اپنی عوام سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر ان حکمرانوں کی اپنی عوام میں کوئی بنیادیں ہوتیں تو یہ اپنے آپ کو ان کے سامنے جوابدہ سمجھتے۔ امریکہ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لیے اپنے ملک و قوم سے غداری نہ کرتے۔
بحرین کے واقعے کو ہی ملاحظہ فرمائیے ، سعودی حکمران جنہیں خادم الحرمین ہونے کازعم ہے۔ جن کے مذہبی منصب کے سبب اسلامی دنیا میںعوام کی ایک کثیر تعداد انہیں احترام کی نظر سے دیکھتی ہے نے امریکی خوشنودی کے لیے کیا کیا ستم نہیں کیے۔تقدس کے فریب میں یا کسی اور تعلق کے سبب آنکھیں بند کر لی جائیں تو اور بات ہے۔ورنہ کیا یہی سعودی فرمانروا نہیں ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک میں بسنے والے دیگر اسلامی مسالک پر عرصہ حیات تنگ کر دیا؟ قطیف کے شیعہ ہوں یا نجران کے اسماعیلی ، یمن کے نواحی علاقوں کے زیدی ہوں یاحجاز میں بسنے والے حنفی کون سا ایسا طبقہ ہے جسے سعودی شہر وں میں اپنے مراسم کی آزادی میسر ہے؟کون سا ایسا شہر ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں؟
یمن میں زیدیوں نے قیام کیا تو سعودی حکمرانوں نے اسلحے کے انبار یمنی افواج کے حوالے کر دئے اور نہ صرف یہ بلکہ سعودی فضائیہ کے طیارے مفلوک الحال یمنی آبادیوں پر بمباری کرتے رہے۔ ان غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا کیا یہی قصور نہ تھا کہ وہ زیدی ہیںاورآل سعود کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے؟لبنان میں حکومت کی تشکیل پر اختلافات کا معاملہ سامنے آیا تو اسی خادم الحرمین نے ثالثی کی اور مصالحت کا فارمولا پیش کیا، لیکن جب عراق میںشیعہ سنی فسادات ہوتے رہے تو شاہ عرب کسی منظر نامے پردکھائی نہ دیئے۔فلسطینیوں کے ان حکمرانوں سے شکوے بھی کسی سے پنہاں نہیں۔امریکہ اور اسرائیل کے اتحادی مصری آمر حسنی مبارک کی کرسی کو خطرے میں دیکھا تو شاہ عبد اللہ کو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجھک محسوس نہ ہوئی کہ ’’حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے مصری عوام در انداز ہیں جو ملک کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں‘‘۔عرب لیگ بھی اس قتل عام پرلب بستہ رہی اور اب یہی عرب لیگ لیبیا کے واقع پر نو فلائی زون کی کراردادیں پیش کر رہی ہے۔ لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا اپنی عوام کو طاقت کے زور پر کچلنا انتہائی مذموم اقدام ہے جس کی کوئی بھی ذی شعور تائید نہیں کر سکتا، تاہم قذافی کے خلاف قرارداد کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ،حسنی مبارک کی مانند ان حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملاتا تھا۔
کون نہیں جانتا کہ عرب ممالک خصوصا خلیجی ممالک میں، امریکہ کی اپنے ملک سے باہر سب سے بڑی چھائونی قائم ہے،یہ غیر ملکی فوجی تو ان عربوں کی غیرت اور حمیت کے لیے کوئی خطرہ نہیں مگر بحرین کے ستر فیصد شیعہ مسلمان ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹیں اس بات پر شاہد ہیں کہ بحرین کے یہ مسلمان نوے کی دہائی سے اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہیں۔ جسمانی تشدد اور قتل و اغواء کی وارداتیں آئے روز کا معمول ہیں۔آج اپنے مصری بھائیوں سے حوصلہ لیتے ہوئے اگر اس محروم طبقے نے اپنے حقوق کا سوال کیا تو یہ نام نہاد عرب حکمران اپنی افواج کے ہمراہ بحرین میں داخل ہو گئے اور نہتے بحرینی عوام کی اس صدائے استغاثہ کو سنائپر رائفلوں کے ذریعے خاموش کرنے لگے۔ان نہتے مظلوموں کا قصور صرف یہی ہے کہ یہ اس نام نہاد حکمران طبقے کی مطلق العنانیت کے قائل نہیں، اور ان کے ہر عمل پر صدقنا و امنا کی گردان نہیں دہراتے۔
ان عربوں کے شاہنامے اس قسم کے کئی کارناموں سے پر ہیں، ہر ورق ایک زخم ہے۔تیونس کا کرپٹ صدر جب ساری دنیا سے دھتکار دیا گیا توانہی شاہوں نے اسے تمام لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ قبول کیا۔ صرف تیونس ہی نہیں مسلم دنیا کے کتنے ہی بھگوڑے آپ کو سعودی شاہی مہمان ملیں گے۔مسلم دنیا میں کہیں بھی امریکی مفادات کا سودا ہو تو یہ حکمران پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ریمنڈ کے واقعے کو ہی لے لیجیے ہما رے صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ اس تمام معاملے میں سعودی حکومت نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔
اپنے حکمرانوں کی حب الوطنی اور عوام دوستی بھی ہمیں رلانے کو کافی ہے۔امریکی دبائو ان کو عوامی دبائو سے زیادہ عزیز ہے۔وہ اشارہ کریں تو یہ قوم کی بیٹیاں نیلام کر دیتے ہیں۔وہ حکم دیں تو یہ ان کا مجرم چھڑانے کے لیے قومی خزانے لٹا دیتے ہیں۔میں ریمنڈ کی رہائی کے واقعہ سے تادم تحریر کئی ایسے جوانوں سے مل چکا ہوں جو اپنے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس کرتے ہیں۔انہیں کئی بار حوصلہ دیا کہ اس تمام قضیئے میں پاکستانی قوم کا کوئی قصور نہیں۔مگر وہ ہیں کہ ان کے دل کی آگ بجھتی ہی نہیںاور بجھے بھی تو کیسے۔ہم مفلوک الحال لوگوں کے پاس اگر کوئی شے بچی ہے تو وہ یہی غیرت و حمیت ہے۔جس کا جنازہ نکالنے میں ہمارے حکمران کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
فی الحقیقت میری فکر کا ہر لمحہ بھی اسی احساس زیاں میںغرق ہے۔ پیروان دین محمد عربی کے، عنان اقتدارپر قابض استعماری ایجنٹوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نگاہیں اقبال کوڈھونڈتی ہیں کہ جس کا دل ملت بیضہ کے غم میں گھلا جاتا تھا۔زبان فغاں کرتے کرتے ٹھٹک سی جاتی ہے کہ آخر ہادی دوراں، نبیؐ خاتم کی ملت ہی ان تما م نحوستوں اور محرومیوں کا شکار کیوں!
بحرین کے واقعے کو ہی ملاحظہ فرمائیے ، سعودی حکمران جنہیں خادم الحرمین ہونے کازعم ہے۔ جن کے مذہبی منصب کے سبب اسلامی دنیا میںعوام کی ایک کثیر تعداد انہیں احترام کی نظر سے دیکھتی ہے نے امریکی خوشنودی کے لیے کیا کیا ستم نہیں کیے۔تقدس کے فریب میں یا کسی اور تعلق کے سبب آنکھیں بند کر لی جائیں تو اور بات ہے۔ورنہ کیا یہی سعودی فرمانروا نہیں ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک میں بسنے والے دیگر اسلامی مسالک پر عرصہ حیات تنگ کر دیا؟ قطیف کے شیعہ ہوں یا نجران کے اسماعیلی ، یمن کے نواحی علاقوں کے زیدی ہوں یاحجاز میں بسنے والے حنفی کون سا ایسا طبقہ ہے جسے سعودی شہر وں میں اپنے مراسم کی آزادی میسر ہے؟کون سا ایسا شہر ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں؟
یمن میں زیدیوں نے قیام کیا تو سعودی حکمرانوں نے اسلحے کے انبار یمنی افواج کے حوالے کر دئے اور نہ صرف یہ بلکہ سعودی فضائیہ کے طیارے مفلوک الحال یمنی آبادیوں پر بمباری کرتے رہے۔ ان غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا کیا یہی قصور نہ تھا کہ وہ زیدی ہیںاورآل سعود کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے؟لبنان میں حکومت کی تشکیل پر اختلافات کا معاملہ سامنے آیا تو اسی خادم الحرمین نے ثالثی کی اور مصالحت کا فارمولا پیش کیا، لیکن جب عراق میںشیعہ سنی فسادات ہوتے رہے تو شاہ عرب کسی منظر نامے پردکھائی نہ دیئے۔فلسطینیوں کے ان حکمرانوں سے شکوے بھی کسی سے پنہاں نہیں۔امریکہ اور اسرائیل کے اتحادی مصری آمر حسنی مبارک کی کرسی کو خطرے میں دیکھا تو شاہ عبد اللہ کو یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجھک محسوس نہ ہوئی کہ ’’حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے مصری عوام در انداز ہیں جو ملک کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں‘‘۔عرب لیگ بھی اس قتل عام پرلب بستہ رہی اور اب یہی عرب لیگ لیبیا کے واقع پر نو فلائی زون کی کراردادیں پیش کر رہی ہے۔ لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا اپنی عوام کو طاقت کے زور پر کچلنا انتہائی مذموم اقدام ہے جس کی کوئی بھی ذی شعور تائید نہیں کر سکتا، تاہم قذافی کے خلاف قرارداد کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ،حسنی مبارک کی مانند ان حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملاتا تھا۔
کون نہیں جانتا کہ عرب ممالک خصوصا خلیجی ممالک میں، امریکہ کی اپنے ملک سے باہر سب سے بڑی چھائونی قائم ہے،یہ غیر ملکی فوجی تو ان عربوں کی غیرت اور حمیت کے لیے کوئی خطرہ نہیں مگر بحرین کے ستر فیصد شیعہ مسلمان ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹیں اس بات پر شاہد ہیں کہ بحرین کے یہ مسلمان نوے کی دہائی سے اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہیں۔ جسمانی تشدد اور قتل و اغواء کی وارداتیں آئے روز کا معمول ہیں۔آج اپنے مصری بھائیوں سے حوصلہ لیتے ہوئے اگر اس محروم طبقے نے اپنے حقوق کا سوال کیا تو یہ نام نہاد عرب حکمران اپنی افواج کے ہمراہ بحرین میں داخل ہو گئے اور نہتے بحرینی عوام کی اس صدائے استغاثہ کو سنائپر رائفلوں کے ذریعے خاموش کرنے لگے۔ان نہتے مظلوموں کا قصور صرف یہی ہے کہ یہ اس نام نہاد حکمران طبقے کی مطلق العنانیت کے قائل نہیں، اور ان کے ہر عمل پر صدقنا و امنا کی گردان نہیں دہراتے۔
ان عربوں کے شاہنامے اس قسم کے کئی کارناموں سے پر ہیں، ہر ورق ایک زخم ہے۔تیونس کا کرپٹ صدر جب ساری دنیا سے دھتکار دیا گیا توانہی شاہوں نے اسے تمام لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ قبول کیا۔ صرف تیونس ہی نہیں مسلم دنیا کے کتنے ہی بھگوڑے آپ کو سعودی شاہی مہمان ملیں گے۔مسلم دنیا میں کہیں بھی امریکی مفادات کا سودا ہو تو یہ حکمران پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ریمنڈ کے واقعے کو ہی لے لیجیے ہما رے صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ اس تمام معاملے میں سعودی حکومت نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔
اپنے حکمرانوں کی حب الوطنی اور عوام دوستی بھی ہمیں رلانے کو کافی ہے۔امریکی دبائو ان کو عوامی دبائو سے زیادہ عزیز ہے۔وہ اشارہ کریں تو یہ قوم کی بیٹیاں نیلام کر دیتے ہیں۔وہ حکم دیں تو یہ ان کا مجرم چھڑانے کے لیے قومی خزانے لٹا دیتے ہیں۔میں ریمنڈ کی رہائی کے واقعہ سے تادم تحریر کئی ایسے جوانوں سے مل چکا ہوں جو اپنے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس کرتے ہیں۔انہیں کئی بار حوصلہ دیا کہ اس تمام قضیئے میں پاکستانی قوم کا کوئی قصور نہیں۔مگر وہ ہیں کہ ان کے دل کی آگ بجھتی ہی نہیںاور بجھے بھی تو کیسے۔ہم مفلوک الحال لوگوں کے پاس اگر کوئی شے بچی ہے تو وہ یہی غیرت و حمیت ہے۔جس کا جنازہ نکالنے میں ہمارے حکمران کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
فی الحقیقت میری فکر کا ہر لمحہ بھی اسی احساس زیاں میںغرق ہے۔ پیروان دین محمد عربی کے، عنان اقتدارپر قابض استعماری ایجنٹوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نگاہیں اقبال کوڈھونڈتی ہیں کہ جس کا دل ملت بیضہ کے غم میں گھلا جاتا تھا۔زبان فغاں کرتے کرتے ٹھٹک سی جاتی ہے کہ آخر ہادی دوراں، نبیؐ خاتم کی ملت ہی ان تما م نحوستوں اور محرومیوں کا شکار کیوں!
ہمہ تن داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نھم
پنبہ کجا کجا نھم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیک
اگر ان حکمرانوں کی اپنی عوام میں کوئی بنیادیں ہوتیں تو یہ اپنے آپ کو ان کے سامنے جوابدہ سمجھتے۔
’’حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے مصری عوام در انداز ہیں جو ملک کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں‘‘۔شاہ عبداللہ
ہم مفلوک الحال لوگوں کے پاس اگر کوئی شے بچی ہے تو وہ یہی غیرت و حمیت ہے۔
ڈیک
اگر ان حکمرانوں کی اپنی عوام میں کوئی بنیادیں ہوتیں تو یہ اپنے آپ کو ان کے سامنے جوابدہ سمجھتے۔
’’حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے مصری عوام در انداز ہیں جو ملک کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں‘‘۔شاہ عبداللہ
ہم مفلوک الحال لوگوں کے پاس اگر کوئی شے بچی ہے تو وہ یہی غیرت و حمیت ہے۔
* * * * *
Share this content: