سید ثاقب اکبر

تھر۔پار۔کر، دیکھ تھرپارکر

کئی روز گزر گئے تھرپارکر سے واپس آئے ہوئے، لیکن جیسے دل و دماغ تھرپارکر میں ہی رہ گیا۔ تھرپارکر کی ہوشربا داستانیں سنتے ہوئے کئی دہائیاں بیت گئیں، تھرپارکر کی یاد کے ساتھ کتنی آہیں، کتنی سسکیاں اور نیم مردہ جسموں کی تصویریں ساتھ ہی سنائی دینے اور ابھرنے Read more…

سید ثاقب اکبر

اس شہر خرابی میں۔۔۔۔۔

غم ہے کہ کم ہونے کو نہیں آتا۔ درد ہے کہ سوا ہوا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے میری ہڈیاں توڑ دی گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ میرا بدن چور چور کر دیا گیا ہے۔ جیسے مجھے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ہڈیوں سے چٹخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہوا۔ مجھے تو کئی مرتبہ قتل کیا گیا ہے۔ کبھی ہتھوڑوں سے میرے سر کو پھوڑا گیا ہے۔ کبھی بارود سے اُڑا دیا گیا ہے۔ کبھی آری سے آڑا ترچھا کاٹا گیا ہے۔ میں تو کب سے اپنی لاش کندھے پر لیے پھرتا ہوں۔ سیالکوٹ کے مظلوم مقتول کو تو وارث مل گئے ہیں۔ یہ نصیب ہر مقتول کا تو نہیں ہوتا۔ بیرون ملک سے، کسی اور ملک کے صدر کا، مقتول کے لیے فون آئے یا ہمارے وزیراعظم کا مظلوم کی حمایت میں فون جائے۔ چلیں کوئی مرہم رکھنے والا ہاتھ مل گیا۔ غم تو غم ہے، سانجھا ہے۔ درد انسانیت کا ہو تو پھر سارے انسانوں کا ہے لیکن وہ بھی تو انسان ہی تھے، جو مارے گئے، خبر آئی، کچھ شور ہوا، کچھ پوسٹیں لگیں مگر چیف آف آرمی اسٹاف بھی اظہار رنج و غم کرے اور وزیراعظم بھی سانحے کو المناک قرار دے کر مظلوم کے خون کا پہرے دار ہو جائے، یہ تو بہت کم ہوتا ہے، شاذ ہی کسی کی قسمت میں اس درجے کی شنوائی ہوتی ہے۔ (more…)