سید ثاقب اکبر کے علمی آثار کا تعارف
(علامہ سید ثاقب اکبر مرحوم کی پہلی برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
تحریر: سید اسد عباس
بانی البصیرہ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل سید ثاقب اکبر مرحوم نے اپنا قلمی سفر عہد جوانی میں شروع کیا۔وہ بتاتے تھےکہ میں شعر بہت چھوٹی عمر سے کہتا تھا تاہم باقاعدہ تحریروں کا سلسلہ ان کے ایک طلبہ تنظیم میں شمولیت کے بعد شروع ہوا۔ سید ثاقب اکبر نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اشتہارات، پمفلٹس، کتابچے تحریر کرنے شروع کیے۔ اس دور میں آپ کی تحریریں آئی ایس او کے رسالے راہ عمل اور رضاکار اخبار میں بھی شائع ہوتی تھیں۔ سید ثاقب ایک عرصے تک رضاکار اخبار کے سب ایڈیٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے عہدہ صدارت سے علیحدگی کے بعد آپ نے مکتب تشیع کی سب سے بڑی تنظیم تحریک جعفریہ میں خدمات سرانجام دینی شروع کیں۔ سید ثاقب اکبر مرحوم پیشہ کے اعتبار سے ٹاؤن پلینر تھے، آپ نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے ٹاؤن پلینگ کے شعبے میں ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ تعینات ہوئے تاہم بتاتے ہیں کہ ایک روز علامہ سید صفدر حسین نجفی کی کال موصول ہوئی اور انھوں نے کہا کہ تمھارے لیے قرآنیات کے شعبے کا ایک کام ہے، جتنا جلدی ہو سکے لاہور آ جاؤ۔
سید ثاقب اکبر بتاتے ہیں کہ میں نے اس موضوع پر کافی غور کیا، میں نے سوچا کہ ہم انبیاء اور آئمہ کے حکم کی تعمیل کا دعوی کرتے ہیں، آج اگرچہ آئمہ اور انبیاء ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تاہم یہ علماء انہی کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگر آج میں ان علماء کے حکم کی تعمیل نہیں کر سکتا تو شاید میں آئمہ اور انبیاء کے حکم کی بھی تعمیل نہ کر سکوں۔ سید ثاقب اکبر کہتے ہیں کہ میں استعفی دے کر لاہور پہنچ گیا اور علامہ سید صفدر حسین نجفی سے ملا۔ جنھوں نے مکتبہ الرضا کے زیر اہتمام تفسیر نمونہ کے ترجمے کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی۔ سید ثاقب اکبر نے اس ادارے میں تفسیر کی دس جلدوں کے ترجمے کی تصحیح کی۔ مکتبہ الرضا میں کام کرنے والے ان کے ساتھی اور سماجی راہنما سید انجم رضا ترمذی کہتے ہیں کہ اسی دور میں پیام قرآن۔ تفسیر موضوعی آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی پر بھی کام ہوا۔ سید انجم کے مطابق اسی دور میں سید ثاقب اکبر نے اپنا شعری مجموعہ ” یا لیتنا” بھی شائع کیا۔ تفسیر نمونہ کی باقی جلدوں کی اصلاح کا کام مصباح القرآن ٹرسٹ کے تحت انجام پایا۔
سید ثاقب اکبر مرحوم علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے قریبی رفقاء میں سے تھے۔ تحریک جعفریہ کا منشور ہمارا راستہ اور “تحریک کا سیاسی سفر” مرتب کرنے والی ٹیم کا حصہ رہے، نثار علی ترمذی صاحب کی روایت کے مطابق ان دستاویزات کی تیاری میں بقول سید ثاقب اکبر ان کا حصہ ستر فیصد کے قریب تھا۔ اس کے بعد سید ثاقب اکبر اپنے دیرینہ رفیق ڈاکٹر محمد علی نقوی اور دیگر چند تنظیمی ساتھیوں کے مشورے کے ساتھ عازم قم ہوئے جہاں آپ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شعبہ تالیف و ترجمہ میں کام کیا۔ قم سے واپسی پر سید ثاقب اکبر نے اپنے ساتھیوں انجینئر امتیاز رضوی، علامہ حسین عباس گردیزی اور علامہ امین شہیدی کے ہمراہ اخوت اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اخوت اکیڈمی پاکستان میں مکتب تشیع کا پہلا تحقیقی ادارہ تھا، جیسا کہ اس ادارے کے نام سے ظاہر ہے اس ادارے کی بنیاد اتحاد و اخوت پر رکھی گئی۔
سید نثار علی ترمذی مدیر ماہنامہ پیام بتاتے ہیں کہ جب سید ثاقب اکبر لاہور تشریف لائے تو ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مجھے سید ثاقب اکبر سے ملنے کا کہا، میں نے سید ثاقب اکبر سے ان کی آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے سوال کیا تو سید ثاقب اکبر نے بتایا کہ وہ ملک میں اتحاد و وحدت کے لیے کام کریں گے۔ سید نثار علی ترمذی کہتے ہیں کہ ایک شیعہ تنظیم کے قائد کی جانب سے یہ بات میرے لیے حیران کن تھی اور بالخصوص پاکستان کے معروضی حالات ایسی کسی بات کے لیے مناسبت نہ رکھتے تھے۔ سید نثار علی ترمذی کہتے ہیں کہ سید ثاقب اکبر نے مجھے بتایا کہ قرآن کریم کی تعلیمات، امام خمینی کے ارشادات کی روشنی میں اتحاد امت، امت مسلمہ کے مسائل کے حل کی کلید ہے۔ ہمیں اس کے لیے معاشرے میں کوشش کرنی ہے۔
اخوت اکیڈمی نے اپنے کام کا آغاز 1995ء میں کیا ، اس ادارے کے تحت متعدد علمی و فکری سیمینارز، محافل اور نشستیں ہوئیں۔ کتب اور مقالات کی تالیف و ترجمہ کا آغاز ہوا۔ اخوت اکیڈمی نے ہی ماہنامہ پیام کا اجراء کیا۔ چند ناگزیر حالات کے سبب اخوت اکیڈمی اپنا کام جاری نہ رکھ سکیں۔ اخوت اکیڈمی کے بانیوں سید امتیاز رضوی، علامہ سید حسنین عباس گردیزی اور علامہ امین شہیدی نے مختلف شعبہ جات میں کام کا آغاز کیا جبکہ سید ثاقب اکبر نے البصیرہ ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ البصیرہ ٹرسٹ 2005ء میں رجسٹر کروایا گیا۔ سید ثاقب اکبر نے اگرچہ بہت سی کتب کے تراجم اور تالیف کی، ان کے تحریر کردہ مقالات، مضامین، آرٹیکلز کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں ہے۔
سید ثاقب اکبر نے جن موضوعات پر لکھا ان میں قرآنیات، علم حدیث، فلسفہ، علم فقہ، کلام جدید، جدید عصری مسائل، سیرت النبیؐ، سیرت اہل بیتؑ، تاریخ، شخصیات، عرفان، سیاسی و سماجی مسائل شامل ہیں۔ ان مرکزی عناوین کے تحت مزید عناوین بھی موجود ہیں جیسے کہ سیاسی مسائل میں عالمی امور، ملکی سیاست، مشرق وسطی، پاک افغان تعلقات، پاک چین تعلقات، پاک بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیر، سماجی مسائل شامل ہیں۔ سید ثاقب اکبر کی طبع شدہ تصانیف میں “علامہ اقبال کی نظریاتی اساس” شاید اخوت اکادمی کے زمانے میں شائع ہوئی۔ البصیرہ پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتابیں حسب ذیل ہیں۔
مطبوعہ تالیفات:
جماعت اسلامی ایک حاصل مطالعہ
پاکستان کے دینی مسالک
امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی
چلو پھر ایران کو چلتے ہیں
ترکی میں احادیث کی جدید موضوعی تدوین
زلیخا عشق حقیقی سے عشق مجازی تک
حروف مقطعات مختلف آراء کا تجزیاتی مطالعہ
امام حسین ؑ اور کربلا چند اہل سنت اکابر کی نظر میں
اسلام ایک زاویہ نگاہ
معاصر مذہبیات چند فکری و سماجی پہلو
اسلام اور انتہا پسندی
نبی ؑمہربان کی مناجات رمضان
قرآن و سائنس (ڈاکٹر قلب صادق کی دس تقاریر)
مطبوعہ تراجم:
ترجمہ تاریخ یعقوبی
قرآن ہمارا عقیدہ (ترجمہ )
پانزدہ گفتار (ترجمہ خطبات مطہری ) یہ کتاب دوبارہ بھی شائع کی گئی
آئین تربیت (ترجمہ ) ناشر مصباح الہدی
دنیائے شہر تا شہر دنیا (ترجمہ )سابق صدر ایران کی کتاب
خطابہ و منبر (ترجمہ )شہید مرتضی مطہری کے خطابات
وحدت اسلامی امام خمینی کی نظر میں (ترجمہ ) ادارہ نشر و تنظیم آثار امام خمینی۔ یہ کتاب البصیرہ کے زیر اہتمام دوبارہ شائع ہوئی۔
فطرت، استاد مرتضی مطہری (ترجمہ)
عرفان حافظ ، مرتضی مطہری (ترجمہ )قیام پبلیکیشنز
پیام قرآن۔ تفسیر موضوعی آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی (تین جلدیں)
شعری مجموعے:
نغمہ یقیں
شب کی شناسائی
زمزمہ ایمان
پیر جماران (برصغیر کے امام خمینی کی شان میں کہے گئے اشعار کا مجموعہ)
یا لیتنا (غزلیات اور نظموں کا ایک انتخاب)
سید ثاقب اکبر کی چند اہم مطبوعات کا تعارف
پاکستان کے دینی مسالک
پاکستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ مسائل بالخصوص علمی مشکلات کے مدنظر اس چیز کی ضرورت کو محسوس کی گئی کہ ایک ایسی دستاویز تشکیل دی جائے جس میں پاکستان میں پائے جانے والے معروف دینی مسالک کے بنیادی عقائد اور مسالک کے بارے میں نظریات کو ان کے اہل علم افراد کے اقوال اورتحریروں کے تناظر میں مرتب کیا جائے۔ اس تحقیق کا بیڑا جناب ثاقب اکبر نے اٹھایا اور پاکستان کے طول و عرض میں سفر کرکے ان مسالک کے حوالے سے مستند معلومات جمع کیں۔ اس میں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ اور اسماعیلیہ کے بارے میں ابواب شامل ہیں۔ ہر باب میں متعلقہ مسلک کے بارے میں تعارفی امور، عقائد و افکار، امتیازی مسائل، عصری امور اور دیگر ضروری معلومات شامل ہیں۔ ہر مسلک کے جید علماء نے اپنے مسلک کے بارے میں درج معلومات کے لیے توثیقات اور تعریفی خطوط بھی عنایت کیے ہیں جنھیں کتاب کے آخر میں من وعن شامل کردیا گیا ہے۔ یہ عالم اسلام میں ایک منفرد اور تاریخ ساز دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جو مختلف مسالک کے مابین ہم آہنگی اور قربت پیدا کرنے کے مقصد سے مرتب کی گئی ہے۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔
مختلف مسالک کے جن علماء کرام نے اپنے مسلک سے متعلق باب کی توثیق فرمائی اور ان کی توثیقات کتاب میں شامل ہیں، مندرجہ ذیل ہیں:
جناب مولانا مفتی محمد صدیق ہزاری، رکن اسلامی نظریاتی کونسل
جناب مولانا مفتی غلام مصطفی رضوی، رکن اسلامی نظریاتی کونسل
جناب مفتی گلزار احمد نعیمی، رئیس جامعہ نعیمیہ، اسلام آباد
جناب مولانا مفتی غلام الرحمن، رئیس جامعہ عثمانیہ، پشاور
جناب مولانا حافظ ظفر اللہ شفیق، خطیب جامع مسجد خالد، کیولری گرائونڈ، لاہور و صدر شعبہ اسلامیات، ایچی سن کالج، لاہور
جناب پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
جناب مولانا ڈاکٹرحافظ ابتسام الٰہی ظہیر ،ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث پاکستان،ڈائریکٹر جنرل ادارہ ترجمان السنہ ومدیر اعلیٰ ماہنامہ الاخوہ،لاہور
جناب مولانا مقصود احمد سلفی، ڈائریکٹر ادارہ الاسلام پشاور و مدیراعلیٰ ماہنامہ نداء الاسلام، پشاور
جناب مولانا حافظ ریاض حسین نجفی، رئیس جامعہ المنتظر، لاہور
جناب ڈاکٹر محسن مظفر نقوی، رکن اسلامی نظریاتی کونسل
جناب مولانا افتخار حسین نقوی، رئیس مدرسہ امام خمینی، ماڑی انڈس و مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ، پکی شاہ مردان، میانوالی
علاوہ ازیں مندرجہ ذیل علمائے کرام کا انٹرویو بھی شامل ہے:
جناب سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی، موجودہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل و امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) بلوچستان
جناب مولانا انوار الحق حقانی ،سربراہ شعبہ تعلیمات دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک
جناب مولانا عبدالرحمن مدنی، ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل جیوڈیشل انسٹیٹیوٹ و مدیر اعلیٰ ماہنامہ محدث، لاہور
تاریخ یعقوبی (ترجمہ )
یہ کتاب عالم اسلام کے نامور مورخ احمد بن ابی یعقوب ابن واضح یعقوبی کی تاریخ ہے۔ یہ راہ کشا دستاویز، اسلامی تاریخ کا ایک قدیم ترین اور مربوط ماخذ ہے جس کا ترجمہ ملک کے ممتاز محقق، دانشور اور مترجم جناب ثاقب اکبر نے رواں اور رسا زبان میں کیا ہے۔ دونوں جلدوں کو یکجا شائع کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں ملک کے مایہ ناز دانشور افتخار عارف کہتے ہیں: ’’نامور مورخ، محقق عالم اور شاعر ثاقب اکبر پاکستان کے علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد کو جہان دانش میں انتہائی قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ انھوں نے بہت دشوار اور مشکل زمانوں میں بھی امت توحیدی کے مختلف الخیال حلقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنائے رکھا۔ مسلم دنیا کے نابغۂ روزگار مؤرخ احمد بن ابی یعقوب بن واضح الیعقوبی کی مشہور زمانہ کتاب’’تاریخ یعقوبی‘‘ کو طبری کی ’’تاریخ الامم والملوک‘‘، بلاذری کی ’’تاریخ انساب الاشراف‘‘، دینوری کی ’’تاریخ اخبار الطوال‘‘ پر زمانوی سبقت حاصل ہے جو ازخود ایک امتیاز کی بات ہے۔”
امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی
مسلمانوں کو آج اتحاد و یکجہتی کی جتنی ضرورت ہے وہ ہمیشہ سے زیادہ ہے کیونکہ تقسیم در تقسیم نے مسلمانوں کی قوت کو ایسا منتشر کر دیا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے عالم اسلام دشمنوں کے لیے تر نوالہ بن چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال کی طرح پھر اٹھے اور اس انتشار کو وحدت میں بدل دے۔’’امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی‘‘ اسی راستے کی ایک کوشش ہے۔ سید ثاقب اکبر نے جہاں اتحاد امت کے لیے عملی کوششیں کیں وہیں ان کی علمی کاوشوں کا بھی نہایت اہم کردار رہا ہے۔ وہ اپنی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر معاشرے کی تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ کم ہی کوئی اس کام میں سنجیدگی کا اعتبار کرنے کو بھی تیار ہوتا ہے۔ دین و مذہب کے نام پر اپنا پیسہ اور وقت صرف کرنے والے بھی اپنے مسلک پر خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ ہر کوئی یہی رائے رکھتا ہے کہ پہلے ’’اپنوں‘‘ کی فکر کرنا چاہیئے اور ’’اپنوں‘‘ سے ہر کسی کی مراد اپنے مسلک کے افراد ہیں۔ ایسے میں ہمارا ہاتھ کون تھامتا۔ کوئی مالی تعاون تو کیا کرتا غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے سلسلے شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ معاملہ کردار کشی، تہمت انحراف اور بائیکاٹ تک جا پہنچا۔ تاہم ہماری یہ پختہ رائے رہی کہ اگر سب یونہی سوچتے رہیں تو انتشار امت کو وحدت میں بدلنے کی بات کون کرے گا۔ اعضائے پراگندہ کو بدن واحد میں بدلنے کی تدبیر کون کرے گا۔ ساری امت کو ’’اپنا‘‘ کون کہے گا:
کسی کو رنگ سے مطلب کسی کو خوشبو سے
گلوں کے چاک گریباں کی بات کون کرے
جب کہ ہمیں تو باہمی اتحاد کے بعد ساری انسانیت تک نبی رحمتؐ کا پیغام رحمت پہنچانے کا فریضہ انجام دینا ہے‘‘۔ اس کتاب کو ویسے تو اہل درد، سوز کے ایک وسیع حلقے نے خراج تحسین پیش کیا ہے تاہم کتاب میں مرحوم قاضی حسین احمد، قاضی نیاز حسین نقوی، حافظ ظفر اللہ شفیق اور مفتی گلزار احمد نعیمی کے خوبصورت اور فکر انگیز کلمات تحسین کو شامل کیا گیا ہے۔
چلو پھر ایران کو چلتے ہیں
عام طور پر ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اوائل کے بارے میں لکھا گیا ہے لیکن انقلاب کے بعد آنے والی بنیادی تبدیلیوں کے بارے میں اردو قارئین کم ہی جانتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ ایک مستند کتاب اور ایک منفرد سفرنامہ ہے۔ ہارڈ بائینڈنگ اور معیاری کاغذ کے ساتھ۔یہ انقلاب ایران کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے جسے افکار و آثار اکادمی کراچی نے 2009ء کی بہترین ادبی کتاب قرار دے کر اوّل انعام دیا ہے۔ اس میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اور پہلے کی خارجہ پالیسی، ذرائع ابلاغ میں تبدیلی، اتحاد بین المسلمین کے لیے مساعی، یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ میں ہم آہنگی جیسے موضوعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان (ایک حاصل مطالعہ)
جماعت کے اندر بھی سب جماعت شناس نہیں، اس کے دشمنوں کی بھی کمی نہیں۔ اس سے ناراض اور ناامید ہوجانے والوں کا حلقہ بھی وسیع ہے، مخالفت برائے مخالفت بھی جماعت کے نصیب میں ہے اور اندھی عقیدت رکھنے والوں کے وجود سے بھی واقفان حال کو انکار نہیں۔ جناب ثاقب اکبر نے جماعت اسلامی کے لٹریچر اور شخصیات کا وسیع مطالعہ کرنے کے بعد اس کے بارے میں مختصر کتاب لکھی ہے۔ اس میں جماعت کے اداروں اور شخصیات کا تعارف کروانے کے علاوہ انھوں نے اس کے ناقدین کی آراء بھی ذکر کی ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ جماعت کے تعلقات اور افکار کی اونچ نیچ کو جماعت کی داخلی شہادتوں سے بیان کیا ہے۔ آئندہ کی اسلامی تحریک کا ارمان رکھنے والوں کے لیے اس کا غیر جانبدارانہ مطالعہ بہت مفید ہے۔
ترکی میں احادیث کی مو ضوعی تدوین۔ ضرورت و اہمیت
جناب ثاقب اکبر نے دورہ ترکی کےدوران وہاں احادیث کی جدید موضوعی تدوین کے کام کو بہت قریب سے دیکھا، اس منصوبے کا جائزہ لینے کے بعد اس کے بارے میں مختلف آراء کی روشنی میں اس کا مختصر تعارف اپنے اس کتابچے میں نہایت عمدگی سے کروایا ہے جو محققین کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بارے میں بعض دانشوروں کی آراء:
’’ہمیں امید ہے کہ ترکی کا یہ پروجیکٹ ایک شاندار روایت کو جنم دے گا اور آئندہ اس طرز عمل پر کام کو محققین آگے بڑھائیں گے۔ زیر نظر عجالہ نافعہ نہ صرف اس پروجیکٹ کا بہترین تعارف ہے بلکہ ثاقب صاحب کے ذوق و اسلوب تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ‘‘ (ڈاکٹر محسن نقوی، سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل)
’’امید ہے کہ ترکی میں احادیث کی موضوعی تدوین نو کا منصوبہ اسلامی فکر کی تدوین نو اور تعبیر نو میں مددگار ہوگا۔ جناب ثاقب اکبر نے اپنے دورہ ترکی کے بعد اس کا تحقیقی نظر سے تعارف کروایا ہے۔ ‘‘(خواجہ شجاع عباس)
زلیخا عشق حقیقی سے عشق مجازی تک
عشق زلیخا کا قصہ قرآن کریم کے اہم واقعات میں سے ایک ہے، عموماً اس واقعہ کو حضرت یوسفؑ کی طہارت و پاکبازی کے پہلو سے بیان کیا گیا ہے، تاہم جناب سید ثاقب اکبر نے کوشش کی کہ عشق زلیخا کی داستان کو مختلف منابع سے پڑھ کر اس پر ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جائے۔ یہ کتاب ایسی ہی ایک کاوش ہے جس کے بارے میں سید ثاقب اکبر نے لکھا :
“یہ کتاب دیکھنے میں تو مختصر اور چھوٹی ہے لیکن احسن القصص کے ایک گوشہ کی جلوہ نمائی کے ہدف کے درپے ہے۔ اس کی شکل گیری میں آئینہ سازی سے نازک تر اور گوہر تراشی سے ظریف تر عملیات سے گزرنا پڑا۔ زلیخا کے عنوان سے زلیخا کا مطالعہ شاید بعض نئے گوشوں تک ہمارے پہنچنے کا باعث بن جائے۔ شاید ہم تاریخ اور اس کی ساخت و ارتقاء میں عورت کے کردار کے حوالے سے بعض نئے نکات تک پہنچ سکیں یا کم از کم زلیخا کے تاریخی کرادار اور اس کی شخصیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ شاید وقت نے یہ کام اس دور کے لیے اٹھا رکھا تھا جب انسانی وجدان عورت کو ایک حقیقی، باقاعدہ اور الگ وجود سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار ہوچکا ہے”۔
حروف مقطعات مختلف آراء کا تجزیاتی مطالعہ
حروف مقطعات قرآن کریم کے وہ سر بستہ راز ہیں جس پر محققین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ حروف قرآن کریم کی ۲۹ سورتوں سے قبل استعمال ہوئے ہیں۔ جناب سید ثاقب اکبر نے اپنی اس کتاب میں حروف مقطعات کے حوالے سے مختلف تحقیقی نظریات پیش کرنے کے بعد اس پر اپنی نظر کا اظہار کیا ہے۔ جس کے سبب یہ چھوٹی سی کتاب اس موضوع پر ایک حسین تحقیقی مجموعہ کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔
سید ثاقب اکبر اپنی تصنیف کے بارے لکھتے ہیں:
“ہمارے ہاں مفسرین ان حروف کے بارے میں چند سطحی اور نامکمل سی باتیں کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، جب دقیق مطالب کی حامل تفاسیر کے مطالعے کی نوبت آتی تو مزید معنی خیز مطالب سامنے آنے لگے۔ انھیں مطالب نے حروف مقطعات کےبارے میں میرے تجسس کو مہمیز دی۔ کچھ ایسے مطالب بھی نظر سے گزرے جن سے معلوم ہوا کہ یہ حروف حامل اعجاز بھی ہیں۔ قرآن مجید کے حروف و الفاظ کے مباحث، ان حروف کا فوری مابعد کی آیات مجیدہ سے تعلق، ان حروف کا متعلقہ سورۃ کے تمام مباحث سے تعلق اور ایسے دیگر مطالب کے مطالعے سے مزید تحقیق کی خواہش پیدا ہوئی اور آخر کار ہم نے فیصلہ کیا کہ ان اعجاز آمیز حروف کے بارے میں متقدمین و متاخرین کی آراء کا حتی المقدور مطالعہ کرنا چاہیئے”۔
امام حسینؑ اور کربلا چند اہل سنت اکابر کی نظر میں
یہ کتاب جناب سید ثاقب اکبر کے امام حسینؑ اور کربلا کے موضوع پر مختلف اوقات میں تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس کو جناب سید ثاقب اکبر نے اپنی زندگی میں ہی نئی ترتیب کے ساتھ شائع کیا۔ اس کتاب میں مولانا جلال الدین رومی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ابو الاعلی مودودی، مولانا محمد طیب قاسمی، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی، ڈاکٹر طاہر القادری، حافظ ظفر اللہ شفیق، شیح عبد اللہ دانش اور انجینئر محمد علی مرزا کے امام حسینؑ اور واقعہ کربلا سے متعلق افکار کو اپنی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔
اسلام ایک زاویہ نگاہ
جناب سید ثاقب اکبر دو کتب کو اپنے نظریات کا خلاصہ قرار دیا کرتے تھے۔ ان میں ایک کتاب اسلام ایک زاویہ نگاہ ہے۔ اس کتاب میں اسلام شناسی کے حوالے سے سید ثاقب اکبر کے مقالات کو خود مولف نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں ماہیت دین، دین کے بنیادی معارف، اسلام اور انسان، اسلام اور عقل، حقوق اور اخلاق، اجتہاد اور جمود، اسلام اور ریاست جیسے موضوعات پر مقالات شامل ہیں۔ اس کتاب کی تدوین و جمع بندی کا کام مفتی امجد عباس نے انجام دیا۔
معاصر مذہبیات چند فکری اور سماجی پہلو
سید ثاقب اکبر کے نظریات اور افکار پر مشتمل دوسری کتاب معاصر مذہبیات چند فکری اور سماجی پہلو ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر جدید کلامی مباحث پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے، جس میں پہلا باب معاصر کلامی و اجتہادی مباحث، دوسرا باب مذہب شناسی کی مشکلات، تیسرا باب شریعت و قانون، چوتھا باب سماجی مباحث، پانچواں باب عرفانیات اور چھٹا باب آئینہ مستقبل کے عنوان سے ہے۔
اس کتاب کے مقدمہ میں سید ثاقب اکبر تحریر کرتے ہیں: دینی و مذہبی مسائل پر مطالعے، غور و فکر ، تبادلہ خیال اور مذاکرے کے دوران میں گوناگوں مسائل پیش آتے رہتے ہیں، حقائق آشکار وہتے رہتے ہیں اور مختلف مواقع پر بیان ہوتے رہتے ہیں۔ تجربات و مشاہدات کی بھی ایک دنیا ہے۔ بدلتے حالات بھی نئے زاویہ ہائے نگاہ کو واضح کرتے ہیں۔ ایجادات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور دریافتیں بھی ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔ انسان کی فطرت بھی حقائق شناسی کا ایک سرچشمہ ہے۔ عقل انسانی کے اپنے کرشمنے ہیں۔ عالمی سیاسی حالات بھی نئے دھاروں کا پتہ دیتے ہیں۔ تاریخ بھی قوموں کے تجربات کی امین ہے اور اتار چڑھاؤ کی جائیگاہ ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانین اپنے اندر موجود کچھ قوانین و ضوابط کا پتہ دیتی ہیں۔
بڑے لوگوں کی پیشین گوئیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں ان کی پے در پے صداقتوں کے نشان ملتے ہیں۔ دینی ادبیات اور دینی متون کی شناخت معنی خیز بھی ہے، معرکہ آراء بھی۔ کلام قدیم اور کلام جدید کی بحثیں ہیں۔ الحاد و دین گریزی کی ابھرتی اور پھیلتی لہریں ہیں۔ قدیم روایت سے جڑے لوگوں کے ساتھ بزم آرئیاں ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد کے طرح طرح کے سوال ہیں۔ جب شب و روز ان ساب کا سامنا کرتے، ان موضوعات اور پہلوؤں کا مطالعہ و مشاہدہ کرتے، سنتے، دیکھتے، سوچتے اور کلام کرتے گزرتے ہوں تو پھر رخش قلم کی جادہ پیمائیاں “معاصر مذہبیات ” کو ہی معرض دید میں لاتی ہیں۔
اسلام اور انتہاء پسندی
اسلام اور انتہا پسندی، اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک منصوبہ تھا جس میں معاصر محققین منجملہ جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر محسن مظفر نقوی، محمد خالد سیف، اسلم سہراب اور سید ثاقب اکبر نے اصول و مبادی: جہاد، تکفیر اور نہی عن المنکر، انتہا پسندی، دینی و فقہی مغالطے، دہشت گردی، فکری مغالطے، خوارج: صدر اسلام میں انتہا پسندی کا ایک نمونہ، خارجیت تاریخ اسلام میں انتہا پسندی کے رجحانات کا جائزہ، دہشت گردی: علمائے اسلام کا موقف، اسلامی نظریاتی کونسل کی کوششیں اور سفارشات جیسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس تصنیف میں جناب سید ثاقب اکبر نے تین موضوعات پر لکھا۔ علاوہ ازیں کتاب کی تدوین و ترتیب بھی انھوں نے ہی انجام دی۔ یہ منصوبہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر محمد خالد مسعود کی سربراہی میں تکمیل کو پہنچا اور اس کتاب کو اسلامی نظریاتی کونسل نے ہی شائع کیا۔
نبیؐ مہربان کی مناجات رمضان
یہ کتاب ماہ رمضان میں سچ ٹی وی پر کیے گئے پروگراموں کا مجموعہ ہے جس میں جناب سید ثاقب اکبر نے بطور مہمان نبی اکرم ؐ کے ایام کی مناسبت سے تعلیم کردہ دعاؤں کا ترجمہ اور تشریح پیش کی۔یہ کتاب پروگراموں کو سن کر مرتب کی گئی جس میں آیات اور احادیث کے حوالہ جات بعد میں شامل کیے گئے۔
نغمہ یقیں
نغمہ یقیں سید ثاقب اکبر کا شعری مجموعہ ہے جس میں نعت ، منقبت، سلام کا ایک انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ شاعر کی ذاتی شخصیت، علم اور ایمان کا اس کے شعروں پر اثر کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہے یہ کتاب جناب ثاقب اکبر کے عرفانی و ادبی کا حسین امتزاج ہے۔
شب کی شناسائی
شب کی شناسائی جناب سید ثاقب اکبر کے کلام کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں غزلیات اور نظمیں شامل ہیں،
سید ثاقب اکبر کے غیر مطبوعہ آثار
سید ثاقب اکبر کی مطبوعہ تصانیف و تراجم کے علاوہ متعددآثار غیر مطبوعہ بھی ہیں جن میں مقالات، کتب، ویڈیو لیکچرز شامل ہیں۔ ان کتب کی تفصیل درج ذیل ہے:
حکمت دعا (سچ ٹی وی پر رمضان المبارک کے پروگراموں پر مشتمل کتاب)
اسماعیلیان در بستر زمان (اسماعیلی مسلک کے حوالے سے تحقیق)
قیام امام حسینؑ کی مختلف جہتیں
مقدمہ قرآن (قرآنیات کے حوالے سے مقالات کا مجموعہ)
معرفت قرآن (قرآنیات کے حوالے سے مقالات کا مجموعہ)
سیاسی، سماجی، قرآنیات، علم حدیث، فلسفہ، تاریخ پر مقالات، اب تک بتیس مختلف موضوعات کے مقالات کی جمع آوری ہو چکی ہے۔
دین کا آفاقی پیغام میں دیئے گئے لیکچرز کی ویڈیوز
مختلف علمی نشستوں میں کی گئی گفتگو کی ویڈیوز
اہم سیمینارز میں کی گئی علمی و فکری گفتگو
تربیتی خدمات
سید ثاقب اکبر کے علمی آثار کا ایک بڑا حصہ تربیتی بھی ہے۔ آپ نے متعدد شعبہ جات میں شاگردوں اور تلامیذ کو تیار کیا اس میں صحافت، کالم نویسی، رپورٹ نویسی، شعر و سخن، کلام جدید، قرآنیات اور دیگر دینی علوم کے خوشہ چین شامل ہیں۔ سید ثاقب اکبر ایک علمی و ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تنظیمی اور مدیر بھی تھے۔ اس شعبے میں بھی آپ نے دسیوں شخصیات کی تربیت کی۔ پی ایچ ڈی کے طالب علم تحقیق میں مشاورت اور راہنمائی کے لیے آپ کے پاس تشریف لاتے تھے ان میں ملی یکجہتی کونسل کے بارے پی ایچ ڈی، مسالک کے بارے پی ایچ ڈی مقالات شامل ہیں۔ شعر و سخن میں بھی آپ سے راہنمائی لینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سید ثاقب اکبر مرحوم نے کئی ایک جوانوں کو شعری دنیا میں متعارف کروایا اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
Share this content: