مشرب امام خمینیؒ

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

مشرب امام خمینیؒ

پیش نظر تحریر امام خمینیؒ کے فلسفی و عرفانی مشرب کے تعارف کے لیے ہے۔ امام خمینیؒ کی فلسفی حیثیت پر پہلے ہی ہم اپنے قارئین کے سامنے ضروری ضروری مطالب پیش کرچکے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ بانی انقلاب کی شخصیت اور ان کے مشرب کی شناخت بہت ضروری ہے، چونکہ یہی وہ پہلو ہے، جس سے انقلاب کے سوتے پھوٹتے ہیں اور اس کی راہ کا تعین ہوتا ہے۔ اس پہلو کی معرفت کے بغیر انقلاب کی حقیقت اور اس کی گہرائیوں تک نظر نہیں جا سکتی اور نہ ہی اب تک اس کی پیش رفت کی وجوہ سمجھ میں آسکتی ہیں۔ فلسفے کا اہم ترین موضوع معرفت یا شناخت ہے۔ اس کے مقدماتی علوم میں ذرائع علم یا علم المعرفۃ شامل ہے۔ ابتدائی طور پر علم کو علم حصولی اور علم حضوری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ علم حصولی میں ہمارے پیش نظر واقعیت خارجی ہوتی ہے اور ہم اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن علم حضوری میں ہم اس حقیقت کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ البتہ جب ہم ذرائع علم کو حواس، عقل اور وحی میں منحصر جانتے ہیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ حسی و عقلی شناخت و ادراکات کس قدر قابل اعتماد ہیں اور کیا یہ دونوں وحی کے برابر ہیں۔

واضح ہے کہ اس کا جواب منفی ہے، کیونکہ عقل اور حواسِ درونی عواملِ درونی اور حواسِ بیرونی سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ حواسِ بیرونی سے خطا ہوسکتی ہے اور خالص و محض واقعیت جیسی کہ وہ ہے، ہرگز کسی کے ذہن میں نہیں آتی۔ ہمیشہ ذہن، حواس اور ذہن سے خارج عالم اور ان کا باہمی ارتباط معرفت کے پیدا ہونے میں موثر ہوتے ہیں، اس لیے معرفت یا شناخت کی مشکل لاینحل باقی رہتی ہے۔ اسی لیے فلاسفہ کسی نئی راہ حل کے پانے اور علم حصولی کے علاوہ کوئی اور راستہ دریافت کرنے کی طرف مائل ہوئے۔ پیش رفت کرتے ہوئے انھوں نے علم حضوری، وحی اور مکاشفہ سے معرفت میں قابل اعتماد راستوں کے طور پر استفادہ کیا۔ اسی لیے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ کیا صرف علمِ حصولی کا حاصل کرنا حقیقت تک پہنچنے کا قابل وثوق راستہ ہے یا پھر تقویٰ و طہارتِ قلب حقائق تک پہنچنے کا اصلی راستہ ہے یا کوئی تیسرا راستہ بھی موجود ہے۔ علم حصولی اور علم حضوری کی تقسیم میں امام خمینیؒ اس امر کے قائل ہیں کہ بعض امور کا علم حصولی سے تعلق نہیں ہوسکتا۔ ان امور کا ادراک فقط علم حضوری سے ہی ممکن ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’ان حقائق کا فہم براہین مشائیہ سے حاصل ہوتا ہے، نہ قیاسات فلسفہ سے اور نہ مجادلات کلامیہ سے۔‘‘

ملا ہادی سبزواری ’’شرح منظومہ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’معرفتِ حقائق کے درپے افراد چار طرح کے ہیں، کیونکہ ایک وہ ہیں جو مجرد فکر کے ذریعے ان تک پہنچتے ہیں یا فقط تصفیہ نفس کے ذریعے یا ان دونوں کو معیار قرار دیتے ہیں اور ان میں جمع کے قائل ہیں۔ جمع کے قائلین کو اشراقی کہتے ہیں جبکہ صوفیاء و عرفاء فقط تصفیہ نفس کے قائل ہیں جبکہ وہ افراد جو فقط فکر کو حقائق تک پہنچنے کا راستہ جانتے ہیں، انھیں متکلمین کہا جاتا ہے، البتہ وہ ظواہر دین کی رعایت کرتے ہیں اور چوتھے فلاسفۂ مشاء ہیں، جو فکر کو تنہا معارف تک پہنچنے کا راستہ جانتے ہیں۔ امام خمینی ؒچونکہ حکمت متعالیہ اور صدر المتالہین کے پیرو ہیں، ان کی رائے ہے کہ معرفت اشیاء کے لیے فلسفۂ مشاء، اشراق اور عرفان میں جمع کی ضرورت ہے۔ یعنی صرف فکر بھی کسی مقام تک نہیں پہنچا سکتی اور نہ فکر اور تصفیہ نفس کمال مطلوب ہے بلکہ فکر، تصفیہ نفس کو عرفان و ظواہری شریعت کے ساتھ جمع کرنا چاہیئے، تاکہ معرفت حقیقت تک پہنچا سکے۔ اس لیے فلاسفہ و عرفا کی باتوں میں اختلاف نہیں۔

یہاں ان کی مراد یہ ہے کہ حقیقی اختلاف نہیں، چنانچہ امام خمینیؒ اپنی کتاب ’’مصباح الہدایہ‘‘ میں فرماتے ہیں، اگرچہ عرفان عقل سے بالاتر ایک چیز ہے، لیکن عرفان ہرگز عقل صریح اور برہان روشن کے مخالف نہیں اور نہ مشاہدات عرفانی، عقلی براہین کے مخالف ہیں اور نہ عقلی براہین اصحابِ عرفان کے شہود کے خلاف ہیں۔ البتہ امام خمینیؒ کے نزدیک مقام عرفانی اور علم حضوری کے لیے کچھ شرائط ہیں، چنانچہ وہ کہتے ہیں: ’’یہ وہ علم ہے جو اُن مشائخ سے مختص ہے، جنھوں نے ریاضات و مجاہدات کے ساتھ چراغِ نبوت اور مصباحِ ولایت سے استفادہ کیا ہے۔‘‘ اس مطلب کی وضاحت کے بعد فرماتے ہیں: ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس دنیا سے کنارہ کش ہو جائیں اور اس سے آلودہ نہ ہوں تو ہمیں علمِ شہودی اور کشفِ حقیقی پیدا کرنا ہوگا، تب جا کر ہم ان علوم و معارف تک پہنچیں گے۔‘‘ امام خمینیؒ کے نزدیک ان علوم و معارف اور حقائق پر ایمان کلامی بحث مباحثے اور فلسفی براہین سے پیدا ہونا ممکن نہیں بلکہ ریاضتوں اور خلوتوں کے ذریعے اس کے لیے لطیف ذہانت، قلب کی چمک اور صفائے باطن کی ضرورت ہے۔

اس امر کی پہلے بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ عرفاء کے ہاں ہمیں عقل پر تنقید دکھائی دیتی ہے، تاہم جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، عقل پر جو تنقید کی گئی ہے، اس سے مراد عقل جزئی ہے، سب کی سب تنقید اسی معنی میں ہے۔ خود حضرت امام خمینیؒ کے کلام میں بہت سے مقامات پر عقل و فلسفہ پر تنقید دکھائی دیتی ہے، مثلاً
این فلسفہ را کہ علم اعلیٰ خوانی
برتر ز علوم دیگرش میدانی
خاری ز رہ سالک عاشق نگرفت
ھر چند بہ عرش اعظمش بنشانی

یہ فلسفہ کہ جسے تم علم اعلیٰ کہتے ہو اور دیگر علوم سے اسے برتر جانتے ہو، یہ تو کسی سالکِ عاشق کے راستے سے ایک خار تک نہیں ہٹا سکتا، اگرچہ تم اسے عرش اعظم پر بٹھا دو۔

یہاں یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ حوزہ ہای علمیہ میں فلسفۂ اشراق کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، لیکن امام خمینیؒ نے فلسفۂ اشراق کے مشرب کا خوب مطالعہ کیا اور اس کے اسرار سے آگاہی حاصل کی۔ جناب حائری کہتے ہیں کہ حضرت امام خمینیؒ فلسفۂ اشراق کی تدریس کرتے تھے، نہ کہ فلسفہ مشاء کی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے باب میں بھی حضرت امام خمینیؒ نے شیخ اشراق کا نظریہ قبول کیا ہے، یعنی علم خدا کو ذاتی اور مقدم بر اشیاء جانا ہے، دوسرے لفظوں میں علم خدا کو فعلی اور عین اشیاء جانا ہے۔ فلسفۂ اشراق کی طرف امام خمینیؒ کے اس میلان کی وجہ ان کا اپنا بُعد اخلاقی و عرفانی ہے۔ امام خمینیؒ حقیقی معنی میں مربیٔ اخلاق تھے۔ آپ کی زیادہ تر توجہ تہذیب نفس، روحانیت اور ملکوتِ عالم سے ارتباط کی طرف تھی اور یہ حالت فلسفہ مشاء کی خشک عقلی بحثوں سے مناسبت نہیں رکھتی اور اشراقیوں کے مکاشفات اور و ارداتِ قلبی سے زیادہ شباہت رکھتی ہے۔
 
نوٹ: ان مطالب کے لیے امام خمینیؒ کے دیوان، ان کے مختلف مکتوبات اور مختلف کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ نیز جناب احمد عابدی کے علمی مقالہ ’’بررسی آرای فلسفی امام خمینیؒ‘‘ اور اس کے منابع کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز