حالات سے کٹا ہوا، اڑھائی کروڑ انسان
تحریر: سید اسد عباس
اپنی گذشتہ دو تحریروں میں، میں نے پنجاب کی تقسیم کے واقعات اور اعداد و شمار کے حوالے سے اپنی گذارشات قلمبند کیں۔ ان واقعات میں اگرچہ بہت سے عبرت آمیز اسباق ہیں، تاہم ایک عبرت سب سے اہم ہے۔ یہ عبرت قتل و غارت، لوٹ مار کا شکار ہونے والوں کا اپنے اردگرد کے حالات اور واقعات کا درست تجزیہ نہ کرنا ہے، لٹنے والوں اور قتل ہونے والوں میں اکثر تو ایسے بھی تھے، جو واقعات ہونے کے باوجود عبرت نہ حاصل کرسکے اور اس قتل عام کا نشانہ بن گئے۔ آپ سرحد کے ہندوؤں اور سکھوں سے پوچھیں یا پنجاب میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں سے اسی طرح مشرقی پنجاب میں رہنے والے مسلمان اندازہ ہی نہ لگا سکے کہ تقسیم ہند ان پر ایک آفت کی صورت میں نازل ہوگی۔ اڑھائی کروڑ انسان جو مشرقی اور مغربی پنجاب میں رہ رہے تھے، یہی سمجھتے رہے کہ بھلا ہم کو ہماری آبادیوں، جاگیروں، کاروباروں سے کون نکالے گا۔ وہ جانتے تھے کہ جس مقام پر ہم رہتے ہیں، وہاں کے لوگ ہمارے ساتھ صدیوں سے بس رہے ہیں۔ ہمارے دین اگرچہ جدا جدا ہیں، تاہم زبان، ثقافت، لباس، رہن سہن، رسوم و رواج، خوشی و غمی کا انداز ایک سا ہی ہے۔
بہت سے ایسے سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی داستانیں موجود ہیں، جس میں وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اچانک ہمارے ہمسایوں کو کیا ہوگیا۔ ایسا بھی نہیں کہ سبھی مسلمان یا سکھ بدل گئے۔ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے، جنھوں نے پاکستان سے جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کی نکلنے میں مدد کی۔ ایسے ہی لوگ سرحد پار بھی موجود تھے، تاہم یہ امر واقعی ہے کہ معاشرے کی ایک بڑی اکثریت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ پاکستان میں جس گاؤں پر حملہ ہوتا، ان واقعات کو بیان کرنے والے بتاتے ہیں کہ اردگرد کے دیہاتوں کے لوگ جمع ہوکر حملہ آور ہوتے تھے۔ بے رحمی سے گھروں کو جلاتے، گردواروں، مندروں کو مسمار کرتے اور جو دکھائی دیتا اسے ذبح کرتے۔ شہروں اور دیہاتوں کے واقعات میں بھی فرق تھا۔ دیہاتوں میں باقاعدہ جتھے دیہاتوں پر حملہ آور ہوتے جبکہ شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے، جن کا سلسلہ دسمبر 1946ء سے ستمبر 1947ء تک جاری رہا۔
حملہ آوروں کے ارادے بھی ایک سے نہیں ہوتے تھے، کہیں مقصد لوٹ مار ہوتا تھا، چونکہ ہندو اور سکھ امراء سے تعلق رکھتے تھے۔ لہذا کہیں دکانیں لوٹی جاتیں، کہیں خواتین کا مطالبہ کیا جاتا اور کہیں کلمہ پڑھایا جاتا۔ اس قتل عام میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہوگئے۔ شاید ان کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ اس جہاد میں شامل ہوں تو ان کے تمام گذشتہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔ شاید انھیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک کافر یا مشرک مارنے کا ثواب کس قدر زیادہ ہے، اسی طرح ان پر واضح تھا کہ جو کچھ لوٹا جائے گا، وہ مال غنیمت ہوگا اور اٹھائی جانے والی عورت لونڈی کے طور پر رکھنا جائز ہے۔ سیاسی و نظریاتی اختلاف، جہاد کا تصور اور مال غنیمت کا حصول وہ عناصر تھے، جو سرحد اور پنجاب میں ہندو اور سکھوں کے گھروں اور آبادیوں پر حملوں کا عوامل بنے۔ ان حملوں کے پیچھے ایک اور اہم عامل فوجی تربیت بھی تھی۔
جنگ عظیم دوم کے لیے پوٹھوہار کے علاقے سے بھرتی کیے جانے والے نوجوان جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے علاقوں میں واپس آئے ہوئے تھے، وہ جنگ کرنا بھی جانتے تھے، حملہ کرنا بھی جانتے تھے اور ہتھیار چلانا بھی۔ یہ نوجوان ہندو سکھ قتل عام میں اہم عامل کے طور پر کام آئے۔ اکثر دیہاتوں پر ہونے والے حملوں کی داستان سنانے والوں کا کہنا تھا کہ حملہ آور دو ہزار، تین ہزار یا چار ہزار کے قریب ہوتے تھے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دیہاتوں کی سبھی آبادیاں ان حملوں میں شریک نہیں ہوتی تھیں بلکہ ہم فکر افراد کے جتھے ہی ہندوؤں اور سکھوں کے اکثریتی دیہاتوں پر حملہ آور ہوئے اور باقی کی آبادی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ اگر کسی نے روکنے کی کوشش بھی کی تو وہ حملہ آور جتھے کے ارادوں کے آگے ہار مان گیا اور اپنی عزت بچانے میں ہی عافیت جانی۔
سرحد میں ہونے والے ابتدائی حملوں کے بعد اکثر لوگ مشرقی پنجاب جانے کے بجائے پناہ گزین کیمپوں میں چلے گئے، جو کہ واہ، راولپنڈی، گوجر خان اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں لگائے گئے تھے۔ ان پناہ گزینوں کا خیال تھا کہ جیسے ہی حالات سنبھلیں گے، وہ واپس اپنے آبائی علاقوں کا رخ کریں گے۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ حالات نے کبھی بھی نہیں سنبھلنا اور ان میں سے اکثر کو انہی پناہ گزین کیمپوں یا ان کیمپوں سے منتقلی کے دوران قتل کر دیا جائے گا۔ مشرقی پنجاب میں پہنچنے والی خبروں اور پھر مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب میں آنے والی خبروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ انتقام کی آگ دونوں جانب بھڑک اٹھی اور اس میں سرحد کے دونوں جانب فوجی دستے بھی شامل ہوگئے۔
کہتے ہیں کہ سکھ برادری میں ماسٹر تارا سنگھ وہ واحد آدمی تھا، جو سکھوں اور ہندوؤں کو جتنا جلدی ہوسکے راوی پار کرنے کی تشویق دلوا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب مسلمانوں اور سکھوں کا مل کر رہنا ممکن نہیں ہوگا۔ کانگریس، یونینسٹ پارٹی اور سکھ پارٹی یہی سمجھ رہی تھی کہ سکھ اکثریتی اضلاع ہندوستان کا حصہ بنیں گے جبکہ مسلم لیگ کا خیال تھا کہ انبالہ اور جالندھر ڈویژن کے مسلم اکثریتی اضلاع پاکستان کے حصے میں آئیں گے۔ باؤنڈری کمیشن میں کسی بھی اتفاق پر نہ پہنچنے کے باوجود ہر کوئی اپنے خوابوں کی جنت میں بس رہا تھا۔ سکھ سمجھتے تھے کہ ہماری جاگیروں کو مدنظر رکھ کر تقسیم کی جائے گی، ہندو سمجھتے تھے ریوینیو اور تجارتی منافع کو مدنظر رکھا جائے گا اور مسلمان سمجھتے رہے کہ آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوگی۔
تاہم ان سب کی توقعات دھری کی دھری رہ گئیں اور 17 اگست کو اچانک اڑھائی کروڑ انسان کو علم ہوا کہ وہ غلط مقام پر موجود ہے۔ حالات سے کٹے ہوئے معاشرے کو اپنی ناآگہاہی کی وہ قیمت ادا کرنی پڑی، جس نے تاریخ انسانی کے عظیم المیے کو جنم دیا۔ مختلف اندازوں کے مطابق دس سے تیس لاکھ افراد کا قتل، ہزاروں خواتین کا اغواء، جبری مذہب کی تبدیلیاں ایک جانب، اس مارا ماری میں ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔ ان حادثات کی یادوں کے ساتھ پلنے والی نسلیں آج بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، جو اپنے ٹراما کی وجہ سے معاشرتی اقدار اور روایات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دینی خدمت کا غیر انسانی رویہ
https://albasirah.com/urdu/deeni-khidmat-ka-gher-insani-rawaia/
بشکریہ اسلام ٹائمز
Share this content: