دو آزاد ریاستیں اور یوم تکبیر
تحریر: سید اسد عباس
دنیا کے حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے، کسی زمانے میں برصغیر پر محمود غزنوی کی حکومت تھی، جس کے بعد شہاب الدین غوری برصغیر کا بلا شرکت غیرے حاکم بنا۔ کچھ عرصہ تیمور لنگ نے برصغیر کو اپنی چراگاہ بنایا، پھر مغل حکمران ایک طویل عرصے تک بادشاہی کرتے رہے۔ مغلوں کے بعد انگریزوں نے برصغیر کو اپنی راج کا حصہ بنایا اور پھر پاکستان و ہندوستان آزاد ہوگئے۔ جن حاکموں کا میں نے نام لیا، بالخصوص مغل کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک روز ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ جانے والے اپنا رعب و دبدبہ، اقتدار و جاہ و جلال سب اپنے ہمراہ لے کر منوں مٹی تلے دفن ہوگئے۔ انسانی تاریخ ایسی ہی عبرتوں سے بھری پڑی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو عبرت اسی وقت ملتی ہے، جب فرشتہ اجل آپہنچتا ہے۔ بہت کم ایسے موارد ہیں، جس میں کسی طاقتور کو اپنی زندگی میں ہی اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے، تاریخ کچھ بھی فراموش نہیں کرتی۔
آج مذکورہ بالا بادشاہوں کی نیکیاں اور جرائم ہی لوگوں کو یاد ہیں۔ ان میں سے کوئی اچھا حاکم ہے تو کوئی برا، پاکستان کی تاریخ بھی ہمیشہ محفوظ رہے گی اور ایک وقت آئے گا کہ پاکستان میں بھی تاریخی کرداروں کے حوالے سے رائے قائم کی جائے گی۔ اس میں اچھے اور برے کرداروں کا تعین کیا جائے گا اور اس وقت برے کردار کے حامل لوگ کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ یہ تو تاریخ کا ایک باب تھا، سوچا اپنے قارئین کو اس کے بارے یاد دہانی کرواتا چلوں، اس یاد دہانی کا مقصد کسی کی اصلاح یا اس پر تنقید نہیں ہے، فقط آگاہ کرنا ہے کہ انسانی تاریخ میں کیا ہوا اور انسان نے اپنی زندگی کا سفر کیسے طے کیا ہے۔ اگر اس یاددہانی سے کسی کی روش بدل جائے تو ما شاءاللہ۔ اگر نہ بدلے تو سنت الہیٰ میں تو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے۔
آج 28 مئی ہے، جس دن پاکستان نے ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس دن کو یوم تکبیر بھی کہا جاتا ہے۔ ہم نے یہ ایٹمی دھماکے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے لیے کیے، تاکہ ہم بھارت کو یہ پیغام دے سکیں کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور اپنی آزادی اور استقلال کو ہر چیز سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ یہاں ایک بہت اہم سوال انسانی ذہن سے ٹکراتا ہے کہ ہماری بھارت سے کیا لڑائی ہے؟ یہ شاید انگریزوں سے آزادی کے وقت کی بات ہے، جب برصغیر کے مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انگریز استعمار کے جانے کے بعد ہم ہندو سامراج کے زیر اثر نہیں رہ پائیں گے۔ مسلمانوں کو اس وقت سمجھ آئی کہ ہندو اپنی عددی اکثریت کے سبب انگریزوں کے جانے کے بعد ہر شعبہ زندگی پر حاکم ہوں گے، مسلمانوں کے دینی، مذہبی، مسلکی، سیاسی اور دیگر انسانی حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔
برصغیر کے یہ مسلمان چاہتے تھے کہ ہم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کے مطابق زندگی گزاریں۔ بحیثیت مسلمان ہم دنیا میں ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کریں۔ معیشت، سائنس، سماجیات غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دیں، جہاں قانون و انصاف کی حکمرانی ہو۔ جب پاکستان بن گیا تو 7 مارچ 1949ء بانیان پاکستان میں سے ایک شخصیت نوابزادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے بارے اپنے خوابوں کو ایک قرارداد کی صورت میں ملک کی آئین ساز اسمبلی میں پیش کیا۔ اس قرارداد کو قرارداد مقاصد بھی کہتے ہیں، جو اس وقت ہمارے آئین کا حصہ ہے۔
اس قرارد اد میں لکھا گیا:
* اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی رو سے:
* مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
* اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کی اتباع کی جائے گی۔
* مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
* اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں، اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
* وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے، جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہوگی۔
* بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
* اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
* نظام ِعدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
* وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، تاکہ اہل ِپاکستان فلاح و بہبود کی منزل پاسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوش حالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
آج جب ہم پاکستانی معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں اور اپنا موازنہ اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے کرتے ہیں تو شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ ہم نے دفاع کے میدان میں تو بھارت کا بھرپور مقابلہ کیا، تاہم زندگی کے باقی موارد میں ہم بھارتی سماج سے بہت پیچھے ہیں۔ بھارت اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ علمی اور سائنسی میدان میں ہم بھارت سے بہت پیچھے ہیں۔ ہندوستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی سپیس ایجنسی دنیا کی چوتھی ایجنسی ہے، جو مریخ پر جانے کے لیے پروگرام لانچ کرچکی ہے۔ خلانوردوں کو خلا میں بھیجنا، چاند پر جانا اور طاقتور ٹیلی سکوپس کی تیاری اس کے علاوہ ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر میں ہندوستان ایک اہم مرکز کے طور پر سامنے آرہا ہے۔
ہندوستان میں دس لاکھ شہریوں میں سے 140 شہری ریسرچ کے میدان سے وابستہ ہیں۔ زراعت کے شعبے میں تحقیق اور سبز انقلاب کا منصوبہ 1957ء سے رو بہ عمل ہے، جس کے سبب اس وقت زراعت کے شعبے میں نہ فقط ہندوستان خود انحصاری حاصل کرچکا ہے بلکہ اضافی اجناس بھی پیدا کر رہا ہے۔ ہندوستان جینیات کے شعبے میں اپنا ڈی این اے فنگر پرنٹ سامنے لانے والا دنیا کا تیسرا ملک ہے۔ بہت سے شعبہ جات ہیں، جس میں ہندوستان کی پیشرفت دیدنی ہے۔ یہ تمام پیشرفت ان مسائل کے ساتھ ہے، جن کا خطے کے دیگر ممالک کو سامنا ہے۔ اس کے مقابل پاکستان کہاں کھڑا ہے، کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کی اس پسماندگی کا کون ذمہ دار ہے؟ یہ سوال ہر پاکستانی کو خود سے پوچھنا چاہیئے، بانیان پاکستان تو ایک بڑی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے تھے، انھوں نے تو اپنی تمام تر کوششوں کے بعد ایک آزاد وطن حاصل کیا، اس وقت کے مسلمانوں نے اس وژن اور مقصد کے لیے ہر قربانی دی، لیکن ایسا کیا ہوا کہ پاکستان قرارداد مقاصد سے ہٹ گیا اور آج ایک بھکاری ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ نیوکلئیر ٹیکنالوجی کا حامل یہ بھکاری ملک آخر کیونکر اس حال کو پہنچا۔ یہ سوال ایک اہم سوال ہے، جس کا جواب حاصل کیے بغیر ہم کبھی بھی اپنی راہ کو درست نہیں کر پائیں گے۔ اس سوال کا جواب آج نہیں تو کل ضرور دیا جائے گا اور اس کے ذمہ داران بھی ضرور پہنچانے جائیں گے، کیونکہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟
https://albasirah.com/urdu/pakistan-siasi-mustaqbil/
Share this content: