ایک ہیں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
تحریر: سید اسد عباس
علامہ اقبال کی بہت خواہش تھی کہ “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے”، اگرچہ علامہ اقبال کی یہ خواہش سورۃ فیل اور اس میں درج واقعہ سے میل نہیں کھاتی، کیونکہ حرم کی حفاظت ہاتھیوں والوں سے خداوند کریم نے خود کی اور اس کے لیے انسانوں کا نہیں بلکہ ابابیل جیسے چھوٹے سے پرندے کا استعمال کیا گیا۔ اس واقعہ کے بارے میں ملتا ہے کہ ہاتھیوں والوں نے کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے جب مکہ پر حملہ کیا تو سب سے پہلے انھوں نے اہل مکہ کے اونٹ پکڑے، حضرت عبد المطلب جو بیت اللہ کے متولی بھی تھے، اپنے اونٹوں کا تقاضا کرنے ہاتھیوں والے کے سردار کے پاس گئے۔ ہاتھیوں والا سمجھا کہ شاید رحم کی اپیل کریں گے، تاہم حضرت عبد المطلب نے اپنے اونٹ مانگے، جس پر ہاتھیوں والوں کا سردار حیران ہوا کہ بجائے اپنے حرم کو بچانے کی درخواست کرنے کے، یہ شخص اپنے اونٹوں کا سوال کر رہا ہے۔ اس پر حضرت عبد المطلب نے کہا: اونٹ میری ملکیت ہیں، اس گھر کا مالک خود اپنے گھر کی حفاظت کرے گا اور پھر عام الفیل میں زندگی گزارنے والوں نے دیکھا کہ گھر والے نے اپنے گھر کی حفاظت کیسے کی، جسے قرآن کریم میں سورۃ فیل کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔
اقبال اپنے ایک اور شعر میں لکھتے ہیں:
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک
درج بالا شعر سے تو واضح ہوتا ہے کہ حرم پاک وہی حرم الہیٰ ہے، جس پر فیل والوں نے حملہ کیا تھا، یعنی اس سے مراد کوئی اور حرمت والی چیز نہیں ہے۔اگرچہ رسول اکرم ؐ نے دیگر حرمت والی چیزوں کو بھی اہم قرار دیا بلکہ کئی ایک کے بارے تو کہا کہ ان کی حرمت بیت اللہ کی حرمت سے زیادہ ہے، جیسے کہ انسانی جان، عزت و ناموس، مسلمان کا مال، اسلامی اخوت و برادری، تعلیمات قرآن و سنت لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج اسلام کے نام لیواؤں نے اپنے اپنے حرم وضع کر لیے ہیں۔ جس کے بارے علامہ محمد اقبال نے اپنی نظم وطنیت میں اشارہ کیا:
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
تعلیمات قرآن و سنت، اسلامی اخوت و برادری، جان مسلم، ناموس مسلم، مال مسلم کے بجائے ریاست، ریاستی مفادات، حکومت، حکومتی مفادات، مالی مفادات حرم ہوچکے ہیں۔ ان احرام میں ایک اور حرم اسرائیل بھی ہے، جس کے بارے تمام اسلام کے نام لیوا خواہ عرب ہوں یا عجم ایکا کرچکے ہیں کہ اس غاصب ریاست کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کرنا ہے، بلکہ فقط زبانی جمع خرچ کے ذریعے کام چلانا ہے۔ اگر کوئی عملی اقدام کر بھی رہا ہے تو اپنے ریاستی، مالی اور حکومتی مفادات کو مدنظر رکھ کر۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ یورپ سیاسی اتحاد کرسکتا ہے، امریکا ریاستی اتحاد کرکے وفاق تشکیل دے سکتا ہے، یورپ اور امریکا مل کر فوجی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں، تاہم اسلام کے نام لیوا ایسا کوئی اتحاد تشکیل نہیں دے سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔؟
میری نظر میں تو اس کی بنیادی وجہ کسی بڑے ہدف و مقصد کا نہ ہونا ہے، اسلام کے نام لیواؤں کے مقاصد اور اہداف بہت چھوٹے اور حقیر ہیں، حالانکہ جس دین کا یہ نام لیتے ہیں، وہ آفاقی دین ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ ہونے کو ہے کہ اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے، ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، ہزاروں زخمی ہیں، سینکڑوں مکانات مسمار ہوچکے ہیں۔ مساجد، ہسپتال، اسکول، پانی، بجلی اور دیگر اشیائے ضرورت کے مراکز ملیا میٹ ہو رہے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہے، لیکن ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی والا عالم اسلام تماشہ دیکھ رہا ہے، ان کے مالی وسائل، فوجی طاقت، سفارتی اثر و رسوخ، رقبہ، آبادی سب اسرائیل کی مٹھی بھر افواج کے سامنے ہیچ ہیں۔ مسئلہ فلسطین یا غزہ پر حملہ ایسا واقعہ ہے، جسے دنیا بھر میں جارحیت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے، اگر اسلام کے نام لیوا اس مسئلہ پر اکٹھے ہو کر مشترکہ عملی اقدام نہیں کرسکتے تو یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ یہ امت کسی بھی سنجیدہ مسئلہ پر اکٹھی نہیں ہوسکتی ہے۔
تماشا کرنے یا تماشا دیکھنے کے لیے آپ انھیں جمع کریں، سب حاضر ہوں گے، لیکن جہاں ان کے احرام کو کوئی زک پہنچے گی، وہاں یہ آپ کو دکھائی نہیں دیں گے۔ اسلام کے نام لیواؤں کی اس حالت کو دیکھ کر انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اسلام آج کے زمانے میں کس قدر مظلوم اور بےآسراء ہے۔ ایسا دین جس کا کوئی والی وارث نہیں، جس کا جی چاہے، دین میں اضافہ یا کمی کرتا پھرے، جس کا جی چاہے، اس کا نام استعمال کرکے لوگوں کو بے وقوف بنائے، جس کا جی چاہے، اس کی تعلیمات کے نام پر لوگوں کے اموال لوٹے اور اس پر اپنا حق جتائے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسے میں یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اے خدا! اس دین کے وارث اور اپنے ولی کو بھیج، تاکہ اسلام اور مخلص اہل اسلام کو عزت حاصل ہو، نفاق اور اہل نفاق کو ذلت و رسوائی ملے۔ آمین
یہ بھی پڑھیں: اسلامی بیداری اور قدس کی آزادی
https://albasirah.com/urdu/islami-bedari-quds/
بشکریہ اسلام ٹائمز
Share this content: