ابو مہدی مہندس اک جہد مسلسل
تحریر: سید اسد عباس
جمال جعفر محمد علی آل ابراہیم المعروف ابو مہدی المہندس 1954ء کو بصرہ، عراق میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد عراقی اور والدہ ایرانی تھیں۔ ابو مہدی نے 1977ء میں اپنی پیشہ وارانہ تعلیم مکمل کی اور عراق کی اس وقت کی شیعہ جماعت حزب اسلامی الدعوۃ جو فقط دعوۃ کے نام سے جانی جاتی تھی، اس کے ممبر بن گئے۔ یہ جماعت 1957ء میں محمد صادق نے بنائی تھی۔ اس جماعت کا ہدف سیکولرزم سے مقابلہ نیز معاشرے میں سیاسی، اسلامی شعور کو بڑھاوا دینا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب عراق میں نیشنل ازم اور سوشلزم کا دور دورہ تھا۔ شہید باقر الصدر اس جماعت کے ایک اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ستر کی دہائی میں اس جماعت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے بعثی حکومت نے الدعوۃ کے خلاف کریک ڈاون کا آغاز کیا۔ الدعوۃ کے متعدد ممبران کو گرفتار کیا گیا، الدعوۃ کے بغداد کے سربراہ جیل میں قتل کر دیئے گئے۔ بعثی کورٹس نے متعدد اراکین دعوۃ کو سزائے موت دی۔ 1979ء میں الدعوۃ کو عراق میں بین کر دیا گیا، جس کے سبب اس کے اراکین فرار کرکے ہمسایہ ملک ایران پہنچ گئے۔ مہدی مہندس بھی ان میں سے ایک تھے۔
مہدی مہندس ایران سے کویت گئے، جہاں سے وہ 1983ء میں دوبارہ فرار کرکے ایران آگئے۔ کویت میں ان کی عدم موجودگی میں مقدمہ چلایا گیا، جس میں انھیں سزائے موت دی گئی۔ مہدی مہندس پر کویت میں فرانسیسی سفارت خانے پر حملے کا الزام لگایا گیا۔ 2003ء میں عراق میں امریکی مداخلت کے بعد مہدی مہندس ایک مرتبہ پھر عراق گئے اور امریکی مداخلت کے بعد بننے والے پہلے عراقی وزیراعظم ابراہیم الجعفری کے سکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر تعینات ہوئے۔ 2005ء میں مہدی مہندس نے بابل صوبہ سے الدعوۃ پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور ممبر پارلیمان منتخب ہوئے۔ نوری المالکی کی حکومت کے دوران امریکیوں کو جب مہدی مہندس کے ماضی کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے یہ مسئلہ نوری المالکی کے سامنے اٹھایا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مہدی مہندس ایک مرتبہ پھر ایران آگئے اور اسی دوران میں انھوں نے ایک مسلح تنظیم کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔
2011ء میں امریکی افواج کے عراق سے انخلاء کے بعد مہدی مہندس دوبارہ عراق آئے اور کتائب حزب اللہ کے سربراہ کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ 2014ء میں عراق میں اچانک داعش کے ظہور اور پیشرفت کے بعد عراق کی عسکری تنظیمیں جو میدان عمل میں اتریں، ان میں ایک مہدی مہندس کی جماعت کتائب حزب اللہ بھی تھی۔ عراق کی شیعہ، سنی اور عیسائی عسکری جماعتیں جن میں اکثر جماعتیں شیعہ تھیں، ان کی تعداد چالیس تھی، انہوں نے داعش کے خاتمے اور عراق میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایک اتحاد تشکیل دیا، جسے حشد الشعبی کا عنوان دیا گیا اور مہدی مہندس کتائب حزب اللہ کے کمانڈر کی حیثیت سے حشد کے نائب سربراہ مقرر ہوگئے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ عراق کے بکھرے ہوئے احزاب اور عسکری گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ داعش کے خلاف شام اور عراق میں جنگ لڑنے میں ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل سلیمانی کا اہم کردار تھا۔
2016ء میں عراقی پارلیمان نے حشد الشعبی کو ایک قانونی رضا کار فورس کے طور پر قبول کر لیا، جس کے سربراہ حیدر عبادی اور نائب سربراہ ابو مہدی مہندس تھے۔ اس فورس نے اپنی لازوال قربانیوں اور جنگی حکمت عملی نیز ہم آہنگی سے چند ہی برسوں میں عراق سے داعش کا صفایا کر دیا۔ ابو مہدی مہندس نہ فقط عراق بلکہ شام اور پورے مشرق وسطیٰ میں قاسم سلیمانی کی مانند امریکی عزائم کی راہ میں ایک رکاوٹ تھے، یہی وجہ ہے امریکی اداروں نے ان دونوں شخصیات کے خاتمے کا ارادہ کیا۔ امریکیوں کو اپنے ارادے میں کامیابی کا موقع 3 جنوری 2020ء کو ہاتھ آیا، جب قاسم سلیمانی رات ایک بجے بغداد ائیر پورٹ پر اترے اور ابو مہدی مہندس ان کے استقبال کے لیے بغداد ائیرپورٹ پر گئے۔ یہ دونوں کمانڈر جب ایک ہی کار میں سوار ہوکر بغداد ائیر پورٹ سے نکلے تو ان کی سواری پر میزائل حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ امریکی صدر نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی کا حکم میں نے کل رات کو دیا تھا۔ ان شخصیات کو قتل کرنے کے حوالے سے امریکہ نے الزامات کی ایک فہرست بھی جاری کی، تاہم نہ اسے عالمی قوانین دکھائی دیئے اور نہ ہی انسانی حقوق کے چارٹر۔
یہ بھی پڑھیں: قاسم سلیمانی شہید اور شہید ابو مہدی مہندس کی یاد میں تقریب https://albasirah.com/urdu/qasim-sulimani-abu-mehdi/
ان دونوں شہداء کے جنازے بغداد سے اٹھے اور کربلا، نجف سے ہوتے ہوئے ایران پہنچے۔ اھواز، مشہد سے ہوتے ہوئے مہدی مہندس کا جسد بصرہ لایا گیا اور 8 جنوری کو مہدی المہندس کی نجف اشرف میں تدفین ہوئی۔ ابو مہدی کی شہادت کے بعد سے امریکی افواج کے عراق سے مکمل انخلاء کی تحریک جاری ہے، مختلف مزاحمتی گروہ امریکی افواج پر حملے کر رہے ہیں۔ ایران نے بھی اپنے جرنیل کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں قائم امریکی بیسز پر میزائل حملے کیے۔
آج ان شہداء کی تیسری برسی ہے۔ جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ ان شہداء نے مقاومت کو نئی زندگی بخشی، انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسی شخصیات کو ماورائی خصوصیات کی حامل شخصیات کے طور پر متعارف نہیں کروانا چاہیئے کہ کل کو لوگ یہ تصور کرنے لگیں کہ ان کے مقام کو پانا مشکل ہے۔ سپریم لیڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان شخصیات کی شہادت سے قبل کوئی بھی ان کے بارے میں نہیں جانتا تھا، ایسے ہی آج بھی لوگ موجود ہیں، اگر خدا ان کو توفیق دے اور شہادت کا درجہ نصیب ہو تو لوگ جان سکیں گے کہ وہ کیا ہیں۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے ساتھی شہید کی مانند مہدی مہندس کی زندگی کے بھی مختلف گوشوں، ان کے ساتھیوں کی آراء، ان کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ذہنوں میں موجود یاداشتوں کو جمع کیا جائے، تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک سرمایہ قرار پائے۔
Share this content: