Skip to content

رفح کراسنگ اور ٹرمپ امن منصوبہ

تحریر: سید اسد عباس

اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ کچھ دنوں میں غزہ اور مصر کے درمیان اہم رفح کراسنگ کو فلسطینیوں کے لیے کھول دے گا۔ خبروں کے مطابق یہ یکطرفہ اووپننگ ہوگی، یعنی فلسطینی غزہ کو چھوڑ تو سکیں گے، تاہم واپس نہیں آسکیں گے۔ اسرائیلی فوجی ادارے "کوگاٹ "کے مطابق فلسطینیوں کا غزہ سے انخلاء مصر کے ساتھ ہم آہنگی، اسرائیل کی طرف سے سکیورٹی منظوری اور یورپی یونین مشن کی نگرانی میں کیا جائے گا۔ مصر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی کر رہا ہے۔ سٹیٹ انفارمیشن سروس (State Information Service) نے ایک سرکاری مصری ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ "اگر کراسنگ کھولنے کے لیے کوئی معاہدہ طے پاتا ہے، تو یہ غزہ کی پٹی میں داخل ہونے اور وہاں سے باہر نکلنے کے لیے دونوں سمتوں میں ہوگا، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے عین مطابق ہوگا۔”

ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے میں کہا گیا ہے کہ "دونوں سمتوں میں رفح کراسنگ کو کھولنا اسی طریقہ کار کے تابع ہوگا، جو جنوری میں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔” یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رفح کراسنگ مئی 2024ء سے بند ہے۔ غزہ امن معاہدے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے والے ممالک مصر و قطر اور چھ دیگر مسلم اکثریتی ممالک نے اسرائیل کے اس بیان کردہ منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے جمعہ کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں اسرائیلی فوج کے حالیہ اعلان پر "گہری تشویش” کا اظہار کیا گیا کہ "رفح کراسنگ آئندہ دنوں میں خصوصی طور پر غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے مصر کی جانب باہر نکلنے کے لیے کھولی جائے گی۔”

ٹرمپ کے منصوبے کے تحت 10 اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد رفح کراسنگ کو کھلنا چاہیئے تھا، تاکہ امدادی سامان غزہ پہنچایا جا سکے اور شدید زخمیوں کو علاج کے لیے مصر لے جایا جاسکے، تاہم اسرائیلی حکومت نے نہ فقط امن منصوبے کی جنگی خلاف ورزیاں کیں بلکہ اجرائی خلاف ورزیاں بھی انجام دے رہا ہے۔ جنگ بندی سے لے کر اب تک اسرائیل 600 کے قریب حملے کرچکا ہے۔ رفح کراسنگ کو فقط اس لیے نہیں کھول رہا کہ حماس نے ایک اسرائیلی قیدی کی باقیات کو واپس نہیں کیا ہے، جو ایسے علاقے میں دفن ہے، جہاں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بے پناہ نقصان ہوا ہے۔ مسلم وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں ٹرمپ کے امن منصوبے، جسے اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توثیق حاصل ہے، اس کی تعریف کی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ یہ منصوبہ "بغیر کسی تاخیر یا رکاوٹ کے” آگے بڑھنا چاہیئے۔ وزرائے خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں، جو ٹرمپ کی تجویز کردہ اتھارٹی کو غزہ میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا موقع فراہم کرے، تاکہ یہ اتھارٹی دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری زمینہ فراہم کرے۔

دوحہ میں منعقد ہونے والی سالانہ سفارتی کانفرنس میں ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہا کہ غزہ بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ مسلمان ممالک کا مطالبہ ہے کہ سکیورٹی کونسل کی قرارداد میں آزاد فلسطینی ریاست کے حوالے سے مطالبہ کو واضح انداز سے درج کیا جائے۔ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے غزہ میں اسرائیلی جنگی و اجرائی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور مداخلت کرے، تاکہ امن معاہدہ اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہوسکے۔ فیدان نے اس اجلاس میں کہا کہ ترکیہ غزہ میں اپنی فوج بھیجنا چاہتا ہے، تاہم اسرائیل اس کے خلاف ہے۔ سعودی عرب کی وزیر مفوضہ منال رضوان نے غزہ کو ایک الگ تھلگ بحران سمجھنے کے خلاف خبردار کیا اور زور دیا کہ یہ فلسطینیوں کی خود ارادیت کی وسیع تر جدوجہد سے الگ نہیں ہوسکتا۔

درج بالا سفارتی باتوں اور خبروں سے ایک بات تو واضح طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ مسلمان ممالک غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کے امن منصوبے کو دل و جان سے تسلیم کرچکے ہیں، ٹرمپ کی استحکام فورس، فلسطینی اتھارٹی کو وہ اپنے درد کی دوا سمجھتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ منصوبے کی تحریر میں  کچھ ترامیم کی جائیں۔ اس معصومانہ خواہش پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ قدیم زمانے میں ایک ملک میں بادشاہ کو اپنی رعایا سے شکایت ہوئی کہ وہ کسی بات پر احتجاج نہیں کرتے۔ اسے وزراء نے مشورہ دیا کہ یہ روزانہ کام کاج کے لیے نہر پر موجود پل عبور کرکے دوسرے کنارے پر جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ احتجاج کریں تو آپ حکم جاری کریں کہ جو بھی پل عبور کرے گا، اسے دس جوتے کھانے ہوں گے۔ بادشاہ کو تجویز پسند آئی اور اس نے حکم جاری کر دیا۔

چند روز گزرے تو ایک روز محل کے باہر عوام کا جم غفیر جمع تھا اور چار پانچ بزرگ ان کے آگے آگے چل رہے تھے۔ بادشاہ بہت خوش ہوا کہ میری رعایا میں احساس بیدار ہوگیا ہے اور وہ اپنا حق لینے پہنچ گئے ہیں۔ بادشاہ نے ان بزرگوں کو بلوایا کہ کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ بزرگوں نے نہایت احترام کے ساتھ جان کی امان چاہی اور کہا کہ بادشاہ سلامت ہم روزانہ کام کاج کے لیے پل عبور کرکے نہر کے دوسرے کنارے جاتے ہیں۔ آپ کے حکم کے مطابق آپ کے سپاہی ہر فرد کو دس جوتے مارتے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا تو آپ کیا چاہتے ہیں، کیا یہ حکم واپس لے لوں۔؟ تو سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ "جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کریں، کیونکہ ہمیں کام سے دیر ہو جاتی ہے۔” مسلمان چاہتے ہیں کہ امن منصوبے میں ترامیم کر دیں، باقی منصوبہ یہی ٹھیک ہے۔ سبحان اللہ

بشکریہ :اسلام ٹائمز