×

کیا ہم ظلم کے عادی ہوچکے ہیں؟

کیا ہم ظلم کے عادی ہوچکے ہیں؟

syed asad abbas

آٹھ اکتوبر 2023ء سے غزہ پر شروع ہونے والی اسرائیلی بربریت آج بھی جاری ہے، آج یعنی 12 ستمبر2024ء، جب میں نے یہ تحریر رقم کرنے کا ارادہ کیا، اس سے چار منٹ قبل اسرائیل نے خان یونس میں ایک رہائشی عمارت پر حملہ کیا، جس میں چار فلسطینی شہید ہوگئے۔ شمالی غزہ، وسطی غزہ اور جنوبی غزہ تقریباً ملیا میٹ ہوچکا ہے۔ شہداء اور زخمیوں کی حتمی تعداد کا اب تک درست تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، پچاس ہزار، ایک لاکھ کے جو اعداد و شمار گردش کر رہے ہیں، وہ ایک ابتدائی رپورٹ ہے۔ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، جن کا علم ہی نہیں کہ وہ شہید ہوگئے یا راستہ گم کر بیٹھے۔ اقوام عالم خاموش تماشائی ہیں۔ اس کھلی جیل میں ادویات، خوراک، طبی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ اب تو اسرائیل نے غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے پر بھی حملوں کا آغاز کر دیا ہے، ایسے میں امت مسلمہ ان احادیث کو فراموش کر بیٹھی ہے، جو مسلمانوں کو ایک جسد واحد قرار دیتی ہیں۔ امت واحدہ ہونے کے تمام فلسفے اور تقریریں اپنے مقررین سمیت گم ہیں۔ حملوں کے آغاز میں غزہ کے لیے امداد کی کوششیں شروع ہوئیں، جو اب بالکل خاموش ہوچکی ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت غزہ میں آدھے سے زیادہ مکانات تباہ ہوچکے ہیں، 80 فیصد تجارتی مراکز تباہ ہوگئے ہیں۔ 85 فیصد اسکولوں کی عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں، 36 میں سے فقط 17 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، جہاں ادویات کی شدید قلت ہے۔ تقریباً 65 فیصد شاہراہوں کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ اسی طرح 65 فیصد زرعی رقبہ بھی ملیا میٹ ہوگیا ہے۔ غزہ میں بجلی اور انٹرنیٹ، پینے کے صاف پانی تک دسترس نہیں ہے۔ 23 لاکھ کی آبادی کے پاس جانے کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں بچا۔ الجزیرہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر گھنٹے میں اندازاً پندرہ شہری شہید ہو رہے ہیں، جس میں سے چھے بچے ہیں۔ ہر گھنٹے میں 35 افراد زخمی ہوتے ہیں، ہر گھنٹے میں اوسطاً 42 بمب گرائے جاتے ہیں، ہر گھنٹے میں تقریباً 12 عمارتیں تباہ ہوتی ہیں۔ یہ تو کمانڈ اینڈ کنکر نامی گیم والا سلسلہ ہے، ایک تربیت یافتہ فوج، غیر مسلح اپنے دفاع کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے اور دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ ان قتل ہونے والوں میں 120 فلسطینی صحافی شامل ہیں، طبی عملہ اور امدادی کارکنوں کی بھی شہادتیں ہوئی ہیں، جس میں اقوام متحدہ کے ملازمین بھی شامل ہیں۔

اسرائیل جو بارود فلسطینیوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے، اس کی شدت اور طاقت کا اندازہ 10 ستمبر 2024ء کو “المواسی خیمہ بستی” پر ہونے والے حملے سے کیا جاسکتا ہے۔ جو بمب کپڑے سے بنی ہوئی خیمہ بستی پر گرایا گیا، اس نے زمین میں تقریباً سولہ فٹ گہرا گڑھا بنا دیا، جس کی لمبائی اور چوڑائی تقریباً ایک پلازے جتنی ہے۔ جس بمب نے زمین کا یہ حال کیا ہے، اس نے خیموں میں آرام کرنے والوں کا کیا حال کیا ہوگا۔؟ ایسی وحشیانہ بمباری کے باوجود دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ 2 ستمبر کو ٹی وی پر ٹاک شو سے خطاب کرتے ہوئے بدنام زمانہ جنگی مجرم نیتن یاہو نے ایک نقشے کے ذریعے دکھایا کہ غزہ اسرائیلی افواج کے کنڑول میں ہوگا۔ نیتن یاہو نے بتایا کہ اب دوبارہ کوئی گھر تعمیر نہیں ہوگا اور نہ ہی فلسطینیوں کو واپس جانے دیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی کے شمالی حصے، وسط اور رفح کی سرحد پر موجود رہے گی۔ نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا کہ ان کو کوئی جنگ بندی کا معاہدہ قبول نہیں ہے۔

جب نیتن یاہو سے پوچھا گیا کہ 23 لاکھ کی آبادی، جن کو آپ گھروں میں واپس نہیں جانیں دیں گے، وہ کیا کرے گی تو نیتن یاہو نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا کہ یہ سول اتھارٹی کا کام ہے، وہ جانیں اور ان کا کام۔ اس نقشے میں ایک حیران کن اور نہایت خطرناک چیز مغربی کنارے کی جداگانہ حیثیت کا خاتمہ تھا۔ اس نقشے میں کوئی مغربی کنارہ موجود نہیں تھا، جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ اسرائیل اب مغربی کنارے پر مکمل قبضہ چاہتا ہے اور اسے بطور اتھارٹی بھی قبول نہیں کرتا، شائد یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے میں آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو جب حماس نے اسرائیل میں ایک بڑی کارروائی کی، مجھے اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اہل غزہ کے لیے مشکل دنوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس تخمینے کا سبب مسلم امہ، اس کے قائدین، اقوام مغرب کی گذشتہ ستر سالہ تاریخ ہے۔

مجھے توقع نہیں تھی کہ اسرائیل مغربی کنارے کو بھی صاف کرنے کا ارادہ بنائے گا، یہ ارادہ اس نے اپنی ایک سالہ جارحیت کے دوران عالمی ردعمل کو دیکھ کر بنایا ہے۔ یقیناً دنیا میں اسرائیل کے خلاف بہت سے مظاہرے ہوئے، امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ، اساتذہ اور ریاستی ادارے باہم دست و گریباں رہے، لبنان سے حزب اللہ 8 اکتوبر سے آج تک اسرائیل سے برسر پیکار ہے، حوثیوں نے اسرائیل پر متعدد حملے کیے، تاہم بہت سے اہم ممالک اور کردار خاموش ہیں۔ مذمتی بیانات، قراردادوں اور احتجاج سے اسرائیل کا کیا بگڑتا ہے۔ بدمعاش جب ڈھٹائی پر اتر آئے تو وہ ان سب چیزوں کا تخمینہ لگا کر ہی اقدام کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل، عالمی فورم کی فلسطین کے حوالے سے قراردادیں، سب بھاڑ میں جائیں۔ حالت یہ ہے کہ اب نیتن یاہو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا فون نہیں اٹھاتا، اس کے قوانین کی پاسداری کرنا تو ایک جانب ہے۔

یہ سب کچھ مسلم امہ کی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ اقوام مغرب نے توقع سے زیادہ فلسطین کے مسئلہ پر بیداری کا ثبوت دیا ہے، آج بھی آسٹریلیا میں جنگی نمائش کے موقع پر جنگ مخالف گروہ احتجاج کر رہا ہے، بہت سے یورپی ممالک میں فلسطین سے یکجہتی میں مظاہرے ہوئے، تاہم قطر، سعودیہ، عرب امارات، اردن، مصر، ترکیہ اور دیگر اسلامی ممالک امریکی چوسنیاں منہ میں ڈالے جنگ بندی کے نزول کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان مسلم حکمرانوں پر یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ اگر آج فلسطین کا صفایا ہوتا ہے تو اس سے مراد کسی بھی اسلامی ملک کا صفایا ہے۔ جس مسلم امہ کے حکمران امریکہ کے خوف سے فلسطین میں جاری بربریت پر زبانیں کھولنے، عملی اقدام کرنے سے گھبرا رہے ہیں، وہ کیسے اپنی آزادی اور استقلال کا دفاع کرسکیں گے۔

میں غزہ کی موجودہ صورتحال کو مسلم دنیا کے لیے ایک بڑا واقعہ تصور کرتا ہوں، یہ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ یقیناً گذشتہ 76 برسوں میں مسلم دنیا میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں، جن میں اہم ترین تبدیلی انقلاب اسلامی ایران ہے۔ اس وقت انقلاب اسلامی ایران اسرائیل کے خلاف مقاومت کی سرپرستی کر رہا ہے، تاہم یہ فقط ایران کی جنگ نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین پوری امت کا مسئلہ ہے، یہ ہر اسلامی ملک کا مسئلہ ہے، کیونکہ اگر فلسطین سقوط کرتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں، جس سے دمشق، لبنان، مصر، ترکیہ، عراق، سعودیہ، قطر، بحرین اور عرب امارات سقوط کر جائیں۔ ہم نے 2011ء میں دیکھا کہ کیسے پوری دنیا شام پر چڑھ دوڑی، ہم نے دیکھا کہ کیسے عراق میں اچانک داعش نمودار ہوئے، ہم نے دیکھا کہ کیسے لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، ہم نے مصر میں حسنی مبارک کی حکومت گرتے دیکھی۔

فلسطین نہیں رہتا تو پھر پوری مسلم دنیا کو تیار رہنا چاہیئے، کیونکہ جس بھیڑیئے کے منہ کو خون لگ جائے اور اسے فتوحات کرنے کی عادت پڑ جائے، وہ زیادہ دیر خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ آج وقت تھا کہ مسلم دنیا اتحاد کا مظاہرہ کرتی، فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کرتی۔ ایران اکیلا اسرائیل اور مغربی بلاک کے مقابل نہ کھڑا ہوتا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اور سفارتکاری سے وہ کوئی فتوحات کر لیں گے، وہ آج مغربی کنارے کا حال دیکھ لیں، وہ دیکھیں کہ نیتن یاہو نے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر لیا ہے۔ وہ دیکھیں کہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو اس نے جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھا اور عالمی استعمار اور استکبار اس بربریت میں اس کی پشت پر ہیں۔

Share this content: