×

ٹرمپ کسی ٹی وی شو کا اینکر نہیں

syedasadabbas

ٹرمپ کسی ٹی وی شو کا اینکر نہیں

تحریر: سید اسد عباس

ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں ایک پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ایران کمزور ملک نہیں ہے۔ اس بیان پر بہت سے لوگ خوش ہوئے کہ امریکی صدر نے ایران کے قوی ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیان ٹرمپ کی حقیقت پسندی کا آئینہ دار ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ اپنے دشمن کو کبھی کمزور مت سمجھو۔ مجھے ٹرمپ کا بیان اس کہاوت پر پورا اترتا ہوا دکھائی دیا، جبکہ اس کے برعکس مسلم دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں، جو دشمن کو تنکا، خس و خاشاک، جالا جیسی صفات سے متصف کرتے ہیں۔ عوام کے حوصلے بلند کرنے کے لیے تو ایسا ٹھیک ہے، تاہم اگر ان باتوں پر یقین کر لیا جائے تو یہ دشمن کو ضعیف سمجھنا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی دشمن کے مقابل تیاری بھی اتنی ہی کمزور ہوگی اور دشمن اس کمزوری کا ایسا فائدہ اٹھائے گا کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔

آج کل ٹرمپ کا "غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء” کا منصوبہ زیر بحث ہے۔ ٹرمپ اس منصوبے کا اظہار کم از کم دو مرتبہ کرچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں ٹرمپ نے کہا کہ اردن اور مصر کو اہل غزہ کو اپنے ملکوں میں آباد کرنا چاہیئے۔ غزہ اب قابل رہائش علاقہ نہیں رہ گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ٹرمپ نے ایک اور منصوبے کا اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی امریکہ کے کنٹرول میں رہے گی اور ہم وہاں سے نہ پھٹنے والے بمب اور ملبہ اٹھائیں گے۔ ٹرمپ نے اس کانفرنس کے دوران اہل غزہ کے مستقبل کے حوالے سے بات نہ کی، انھوں نے کہا کہ ہم غزہ کی پٹی کو ایک معاشی زون میں بدل دیں گے، جس سے علاقے کے لوگوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان کے اس بیان میں وضاحت نہیں تھی کہ علاقے کے لوگ فلسطینی ہوں گے یا اسرائیلی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کسی ریئلٹی شو کے میزبان نہیں، جو سیاسی بیان دے کر شہ سرخیوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں۔ وہ دنیا کے ایک طاقتور ملک کے صدر ہیں اور اس لحاظ سے وہ دنیا کے سب سے طاقتور شخص کہے جا سکتے ہیں۔

راقم ٹرمپ کو ان کے پچھلے دور اقتدار میں ایک لاابالی، دیوانہ اور غیر سنجیدہ شخص سمجھتا رہا، تاہم ان کے سابقہ دور کے اقدامات کو دیکھا جائے تو انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس لاابالی شخص نے مزاحمت کی سب سے اہم شخصیات کے قتل کا حکم جاری کرکے مزاحمت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس لاابالی شخص نے دو برس کی محنت اور سفارتکاری کے نتیجے میں پانچ اہم ممالک اور ایران کے مابین طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو ایک دستخط کرکے ختم کر دیا، اس لا ابالی شخص نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امریکی سفارت خانے کو یروشلم یعنی بیت المقدس میں منتقل کیا، اس لا ابالی شخص نے معاہدہ ابراہیمی کی بنیاد رکھی، جس کے تحت متعدد مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس لاابالی شخص کی کسی بھی بات کو غیر سنجیدہ بات قرار دیا جاسکتا ہے اور جب تک وہ امریکی صدر ہے تو اس دوران تو اس کی کوئی بھی بات غیر سنجیدہ نہیں ہے۔

راقم اس سے قبل اوینجیلیکل مسیحیت پر متعدد کالم لکھ چکا ہے۔ امریکا میں موثر ترین مسیحیت کی اس شاخ کو سمجھے بغیر ٹرمپ اور اس کی پالیسیوں کو سمجھنا بہت مشکل چیز ہے۔ ٹرمپ جو کچھ کر رہا ہے، سب اوینجیلیکل مسیحیت کا منصوبہ ہے۔ یہ کسی ایک امریکی حکومت کا منصوبہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا ایک مکتب اور اس کے تھنک ٹینک، ان کا معاشی نظام، ان کے رفاہی ادارے اور سیاسی طاقت موجود ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کا منصوبہ، دیوانگی کی انتہاء ہے اور یہ انتہاء معاشی، فکری، سیاسی، سفارتی منصوبہ بندی چاہتی ہے۔ ٹرمپ کے پاس پورا منصوبہ موجود ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیم سے امریکا کا انخلاء، غیر ملکی امداد کو روکنا، انروا کی مدد روکنا، یہ عام فیصلے نہیں ہیں۔ انروا، یو ایس ایڈ اور ایسے ہی دیگر رفاہی اداروں کا بڑا ڈونر امریکا ہے۔ فلسطین اور دیگر مسلم ممالک میں قائم فلسطینیوں کے تمام پناہ گزین کیمپ انروا کے تحت کام کرتے ہیں۔

پانچ ملین سے زیادہ فلسطینی انروا کے رحم و کرم پر ہیں۔ اگر امریکا انروا کو فنڈنگ روک دیتا ہے، اسی طرح دیگر رفاہی ادارے بھی امداد بند کر دیتے ہیں تو پانچ ملین فلسطینی افلاس کا شکار ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی امدادی اداروں کے فلسطینی زندگیوں پر اثرات کا بغور جائزہ لیا جائے۔ ایسا منصوبہ تشکیل دیا جائے کہ اگر انروا کی فلسطینیوں کو امداد بند ہوتی ہے تو اس کا نعم البدل کیا ہوگا۔فلسطینیوں کے افلاس کے پناہ دینے والے ممالک کی معیشت، سیاست اور سکیورٹی پر کیا اثرات ہوں گے۔ یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ آج کی جنگ فقط ہتھیاروں کی جنگ نہیں بلکہ اس کے معاشی عوامل بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ فی الحال تو اقوام متحدہ، چین، آسٹریلیا، سعودی عرب اور حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے اعلان کو مسترد کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے غزہ منصوبے کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا۔

سعودی عرب نے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے اعلان سے انھیں شدید دھچکا لگا۔ برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو گھروں میں واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کی اجازت ہونی چاہیئے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے ٹرمپ کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کی طرح غزہ بھی فلسطینیوں کا ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی پانچ بڑی طاقتیں امریکا کو برجام معاہدے پر قائم رہنے پر آمادہ کرسکیں۔؟ کیا یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قائم کرنے پر دنیا کے کسی ملک نے امریکا سے روابط کو منقطع کیا۔؟ کیا شہید قاسم سلیمانی اور شہید مہدی مہندس جو حاضر سروس افسران تھے، ان کے قتل پر ٹرمپ کا عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ کے کسی اور فورم پر مواخذہ ہوا۔ اصولی بات اور اصول پسندی اچھی چیز ہے، تاہم یہ دنیا کچھ دیگر اصولوں پر چل رہی ہے، جن میں ایک اصول طاقت ہے اور ٹرمپ کو یہ طاقت حاصل ہے۔

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کا منصوبہ دنیا بالخصوص عرب ممالک کو دھچکا دینے کے لیے دیا ہے۔ جس کا مقصد بڑی مصیبت دکھا کر چھوٹی مصیبت کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ میرے خیال میں ٹرمپ چاہتا ہے کہ عرب ممالک فلسطینیوں کی غزہ میں دوبارہ آبادکاری کے لیے سرمایہ کاری کریں۔ اس سرمایہ کاری کے فوائد امریکی اٹھائیں اور اسرائیل کا فائدہ یہ ہو کہ غزہ میں ایک ایسا سیف زون تعمیر ہو جائے، جہاں سے اسے دوبارہ حملوں کا خطرہ درپیش نہ ہو۔ اگر ایسا نہیں اور ٹرمپ جو کہ رہا ہے، وہ کرنا چاہتا ہے تو یہ ایک انتہائی خطرناک اور مشکل منصوبہ ہوگا، تاہم امریکا کو اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ کم از کم مذمتی بیانات سے تو امریکہ یا اسرائیل رکنے والے نہیں۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Share this content: