×

نسل کشی یا نسلی صفایا، اسباب، عوامل اور محرکات

syedasadabbas

نسل کشی یا نسلی صفایا، اسباب، عوامل اور محرکات

تحریر : سید اسد عباس
"گومبے بن مانسوں کی جنگ” جانوروں کی تاریخ کا بہت انوکھا واقعہ ہے، جو انسانوں کے علم میں آیا۔ یہ جنگ تنزانیہ کے گومبے چشمے کے پارک میں 1974ء سے 1978ء تک جاری رہی، جسے چار سالہ جنگ بھی کہتے ہیں۔ اس جنگ کا احوال تنزانیہ پارک کے عملے اور محقق جین گوڈال نے رپورٹ کیا۔ اس جنگ کا آغاز بن مانسوں کے ایک گروہ کے دوسرے گروہ سے جدا ہونے نیز ایک متحارب گروہ کے ایک بن مانس کے منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے قتل سے ہوا۔ بن مانسوں کے ایک گروہ نے خود کو تنزانیہ کے پارک جو "کساکیلا” کے علاقے میں موجود ہے، کے جنوبی حصے میں محدود کر لیا۔ محققین نے اس نئے گروہ کو "کہاما” کا نام دیا، جبکہ پہلا گروہ اپنے علاقے کے نام "کساکیلا "سے جانا جانے لگا۔ کہاما میں چھے نر بن مانس، تین مادہ اور ان کے بچے تھے، جبکہ کساکیلا میں آٹھ نر، بارہ مادہ اور ان کے بچے تھے۔ چار سالہ جنگ کے دوران کہاما گروہ کے تمام نر بن مانس مار دیئے گئے۔ کساکیلا نے کہاما نروں کو قتل کرنے کے بعد کہاما کے علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ ممکن ہے دیگر جانور بھی ایسی ہی جنگیں لڑتے ہوں اور مخالفین کی نسل کشی یا نسلی صفایا انجام دیتے ہیں، جس کی وجوہات کچھ بھی ہوسکتی ہیں، تاہم کیا ایسے کسی کام کی توقع انسانوں سے بھی کی جاسکتی ہے۔

نسل کشی، نسلی صفایا اور دینی تعلیمات

نسل کشی اور نسلی صفایا دو الگ اصطلاحات ہیں، تاہم بہت حد تک ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان دونوں اصطلاحات سے جڑے ہوئے مفاہیم کی جڑیں اس انسان نما مخلوق میں بھی پائی جاتی تھیں، جو انسانوں سے قبل اس دنیا پر آباد تھی۔ ملائکہ نے تخلیق آدم کے وقت نسل آدم کو خلیفہ قرار دینے پر یہی اعتراض کیا تھا، جسے سورۃ بقرہ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: "کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا، جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا۔” یہ آیت اس امر کی نشاندہی کرتی  ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل زمین پر فساد بھی ہوچکا تھا اور خون بھی بہایا گیا تھا۔ ہم اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ الہیٰ ادیان کا ایک بڑا ہدف انسانی معاشرے کو تعصبات سے پاک کرنا ہے، جو معاشرے میں فساد، خونریزی اور ظلم کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ فتنہ اور فساد کو قتل سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ مذہبی تعلیمات میں ایک خدا کا تصور انسانوں میں اونچ نیچ، بڑا، چھوٹا کے جھوٹے تصورات کو جھٹلاتا ہے اور سب انسانوں کو ایک حقیقی خالق کے سامنے تسلیم ہونے کا کہتا ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مذہب بھی تعصبات کی ایک وجہ اور سبب بن گیا۔

قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے:

"اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں صاحب کرامت وہ ہے، جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔”(سورہ الحجرات آیت 13)

رسول اکرم ؐ کا حجۃ الوداع تعصبات کی نفی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل کلام ہے، جس میں رسول اللہ ؐ نے تمام تر تعصبات کی نفی کی ہے۔ حجۃ الوداع کی روایت کچھ یوں ہے: ابو نضرة کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا، جو مقام منیٰ میں ایامِ تشریف کے درمیان میں حضور صلى الله علیہ وآلہ وسلم کے خطبوں میں حاضر تھا، جبکہ آپ اونٹ پر سوار تھے۔آپ صلى الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

"اے لوگو خبردار، تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ (آدم) ایک ہے، خبردار کسی عربی آدمی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی کالے و سیاہ آدمی کو کسی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ آدمی پر کوئی فضیلت ہے، ہاں تقویٰ فضیلت کا معیار ہے۔ پھر آپ نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا، کیا میں نے پیغام الہیٰ امت تک پہنچا دیا۔ ؟ صحابہ نے جواب دیا جی ہاں، آپ نے پہنچا دیا۔ آپؐ نے فرمایا جو یہاں موجود ہے، وہ اس تک پہنچا دے، جو موجود نہیں ہے۔”(روح المعانی ۸/۱۶۴ من روایت البیہقی والمردویہ، تفسیر قرطبی ۸/۶۰۵)

رسول اکرمؐ کی ایک حدیث ہے، جس میں آپ نے متعصب شخص کو اپنوں سے ہی خارج قرار دیا ہے۔ جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا، جو عصبیت کا داعی ہو اور عصبیت کی خاطر قتال و جنگ و جدل کر رہا ہو اور جو تعصب کی خاطر قتال کرتا ہوا مر جائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(رواہ ابوداوٴد، مشکوة/۴۱۸)

اقوام عالم کی جانب نسل کشی کو مذموم گرداننا

وہ پیغام جو الہیٰ ادیان ہزاروں برسوں سے دیتے آرہے تھے، ان کو اقوام عالم نے  1948ء میں قبول کیا اور نسلی تعصب، نسل کشی اور نسلی صفایا کو مذموم قرار دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کنونشن کا مقصد صہیونیوں کو مظلوم کے طور پر پیش کرنا اور فلسطینیوں کا استحصال کرنا تھا، اس کے باوجود تعریف کی حد تک یہ کنونشن درست تھا۔ اس کنونشن کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کا استعمال بھی ہمیشہ مخالفین کو کنٹرول کرنے اور حامیوں کو ڈھیل دینے کے لیے کیا گیا۔ اس کی تازہ ترین مثال غزہ میں ہونے والی نسل کشی اور نسلی صفایا ہے، جسے عالمی عدالت انصاف نے نسل کشی قرار دیا ہے، تاہم عالمی عدالت ہی نسل کشی کا تعین کرنے پر امریکی عتاب کا نشانہ بن گئی اور اس پر اقتصادی اور سفری پابندیاں لگا دی گئیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس ہونے والا جینوسائیڈ کنونشن نسل کشی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: "کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے درج ذیل میں سے کوئی بھی عمل انجام دینا نسل کشی ہے:

مخصوص گروہ کے افراد کا قتل کرنا۔ اس گروہ کے افراد کو شدید ذہنی و جسمانی نقصان پہنچانا۔ اس گروہ کی مکمل یا جزوی تباہی کے لیے ارادتاً حالات پیدا کرنا۔ اس گروہ کی آبادی میں اضافہ کو روکنے کے اقدامات کرنا۔ اس گروہ کے بچوں کو کسی جگہ سے زبردستی دوسری جگہ منتقل کرنا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 780 کے مطابق قائم کیے گئے ماہرین کے کمیشن کی حتمی رپورٹ میں نسلی صفائی کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: "ایک بامقصد پالیسی جو ایک نسلی یا مذہبی گروہ کی طرف سے پرتشدد اور دہشت گردانہ طریقوں سے کسی دوسرے نسلی یا مذہبی گروہ کو ایک جغرافیائی علاقے سے نکالنے کے لیے بنائی گئی ہو۔ "نسلی صفائی” قتل، تشدد، من مانی گرفتاری اور نظربندی، ماورائے عدالت جنسی استحصال، جنسی زیادتیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ محصور علاقوں میں شہری آبادی کو محدود کرنا، زبردستی انخلاء، نقل مکانی اور ملک بدری، جان بوجھ کر فوجی حملے یا شہریوں اور شہری علاقوں پر حملوں کی دھمکیاں اور املاک کی بے دریغ تباہی۔ یہ طرزعمل انسانیت کے خلاف جرائم ہیں اور ان کو مخصوص جنگی جرائم سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، ایسی کارروائیاں نسل کشی کنونشن کے مفہوم میں بھی آسکتی ہیں۔”

نسل کشی و نسلی صفائی کے عالمی واقعات

اقوام متحدہ کی مشکل یہ ہے کہ اس کنونشن اور تعریف کا اطلاق کیسے کیا جائے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سزا کیسے دی جائے۔ جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا کہ عالمی عدالت انصاف نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی بربریت کو نسل کشی قرار دیا ہے اور اس نسل کشی کا ارتکاب کرنے والا اسرائیلی وزیراعظم مجرم بھی قرار پایا ہے، تاہم اس کو سزا دینا عالمی عدالت انصاف کے اختیار میں نہیں۔ جو کچھ غزہ میں ہوا، یہ ایک ریاستی جرم ہے، تاہم یہی جرم بعض اوقات انسانی آبادیوں کے ذریعے بھی انجام پاتا ہے، جو انتہائی ہولناک ہوسکتا ہے۔ بن مانسوں کی مانند انسانی آبادی دو واضح گروہ میں بٹ جاتی ہے یا انھیں بانٹ دیا جاتا ہے اور پھر طاقتور گروہ کمزور گروہ کا نسلی صفایا یا نسل کشی کرتا ہے۔

دنیا میں آج بھی بہت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں، جن کو نسلی صفایا یا نسل کشی کہا جا سکتا ہے، جیسا کہ غزہ نسل کشی یا نسلی صفایا، مسالیت نسل کشی یا نسلی صفایا، روہینگیا نسل کشی یا نسلی صفایا، ڈارفر میں ڈارفری نسل کی نسل کشی اور نسلی صفایا، روانڈا نسلی کشی اور نسلی صفایا، بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی اور نسلی صفایا، کمبوڈیا میں نسل کشی، مشرقی تیمور کی نسل کشی، یوگینڈا کی نسل کشی وغیرہ۔ انسانی معاشروں میں نسل کشی اور نسلی صفائے کی فہرست بہت طویل ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ بعض انسانی معاشرے بن مانسوں سے مختلف نہیں ہیں بلکہ ہر عنوان سے ان حیوانوں سے زیادہ مکروہ ہیں۔

برصغیر کی سیاہ تاریخ

ہم نے یہودیوں کے نسلی صفائی یا نسل کشی کا بہت غوغا سن رکھا ہے، تاہم بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ برصغیر میں ہونے والی نسل کشی اور نسلی صفایا انسانی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے، جس میں قتل ہونے والوں کی تعداد دنیا میں کسی بھی نسل کشی کے واقعہ سے زیادہ ہے۔ برصغیر کی نسل کشی اور نسلی صفائی کے نتیجے میں اڑھائی کروڑ انسانوں کو اپنا دیس چھوڑنا پڑا۔ ہم یہودیوں کے نسلی صفائی اور نسل کشی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم اپنی تاریخ سے آگاہ ہوں۔ اپنے معاشرے کو سمجھیں، برصغیر میں ہونے والی نسل کشی کے عوامل، اسباب اور محرکات کو سمجھیں، تاکہ اپنے معاشرے کو دوبارہ ایسی انہونی سے محفوظ رکھ سکیں۔ برصغیر میں نسل کشی اور نسلی صفائی سے میری مراد تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات ہیں، جن کا آغاز قیام پاکستان سے کچھ ماہ قبل ہوچکا تھا۔
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد اپنی معروف کتاب The Punjab bloodied partition and cleansed کے دوسرے باب میں نسل کشی کا نظریہ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:

کوئی نسلی گروپ ایسے افراد پر مشتمل ہوسکتا ہے، جو سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، شاید یہ بالکل سچ نہ ہو، لیکن نام نہاد مشترکہ آباو اجداد، یکجہتی کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے مطابق جب معاشرے کے ایک گروہ میں مشترکہ جد، مذہب، زبان یا ایسے ہی کسی اور مشترکہ پہلو کا احساس موجود ہو تو ایسے گروہ کو بھی نسلی گروہ کہا جاسکتا ہے، جب ایسے ہی دو یا دو سے زائد گروہ جو نسلی، مذہبی، فرقہ وارانہ یا ان جیسا کوئی اور مشترکہ اصول رکھتے ہوں، باہم ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے تو اس واقع کو نسلی تصادم کہا جائے گا۔

ڈاکٹر اشتیاق لکھتے ہیں:

نسل کشی ایک مستعمل اصطلاح ہے، جس سے مراد مخصوص آبادی کو (قتل عام یا جبری نقل مکانی یا دونوں طرح سے) نسل، مذہب، فرقے یا دیگر ایسے ہی عوامل کی بنیاد پر مخصوص علاقے سے مٹا دینا ہے۔

نسل کشی یا نسلی صفایا بلحاظ فاعل

نسل کشی یا نسلی صفایا ریاستی مشینری کے تحت بھی ہوسکتا ہے اور حکومتی سرپرستی یا ذمہ داران کی جانب سے اغماض برتنے کے سبب ہونے والے معاشرتی تصادم کے نتیجے میں بھی۔ جو کچھ 2023ء سے 2025ء تک غزہ میں دیکھنے میں آیا، یہ ریاستی اداروں کے تحت ہونے والی نسل کشی کی مثال ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف ریاستی سرپرستی یا آشیرباد کے ساتھ نسل کشی اور نسلی صفائی کی مہم تا حال چلائی جا رہی ہے، جس میں کبھی فوج براہ راست روہینگیا مسلمانوں کو قتل کرتی ہے اور کبھی فوجی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہ۔ نسل کشی اور نسلی صفایا کے بارے میں ہونے والی عالمی قانون سازی کے بعد سے، کسی بھی ریاست یا اس کے کسی ذمہ دار کے لیے بلاواسطہ نسل کشی یا نسلی صفایا کا ارتکاب ایک مشکل کام ہوچکا ہے۔ کئی ایک عالمی راہنماؤں کو اس جرم کے ارتکاب کے سبب سخت سزائیں سننی پڑیں۔ ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونا، مجرم کا قانون کے کٹہرے میں نہ لایا جانا، ایک الگ کہانی ہے۔ تاہم سزا ضرور سنائی گئی اور جرم کا تعین بھی کیا گیا۔

اسی سلسلے کی تازہ ترین سزا عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی  وزیراعظم نیتن یاہو کو غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا مجرم ثابت ہونے پر سنائی۔ ایسی ہی سزا برما کی سابق وزیراعظم، یوگوسلاویا کے سابق صدر کو بھی سنائی گئی۔ حکومتی سرپرستی یا آشیرباد کے ساتھ نسل کشی یا نسلی صفایا ایک ایسا جرم ہے، جس کو شناخت کرنا یا اس کے ثبوت مہیا کرنا نہایت مشکل کام ہے اور اس کی مرحلہ وار پیشرفت مرحلہ وار نسل کشی اور نقل مکانی کا باعث بنتی ہے، جس کی متعدد مثالوں سے ہم آگاہ ہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق:

"کسی بھی ملک کی ریاستی حدود میں شراکت اقتدار کے حوالے سے کسی حل تک پہنچنے میں مکمل ناکامی نیز امن و امان کی تباہی کے نتیجے میں نسل کشی یا نسلی صفائی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پرامن طریقے سے بھی نسلی صفائے کا عمل ہوسکتا ہے، لیکن ایسا بندوبست قابو میں نہیں رہتا بلکہ اس کے لیے دہشت، آگ لگانا، جنسی زیادتی اور دیگر انتہاء پسندانہ طریقے وسیع پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔”

نسل کشی اور نسلی صفایا بلحاظ اعداد و شمار

نسل کشی یا نسلی صفائے کا کوئی بھی واقعہ بلحاظ جرم مختلف نہیں ہے۔ تاہم عمومی طور پر ایسے حادثات کو سنگین گردانا جاتا ہے، جس سے انسانی معاشرہ بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زیادہ مثاثر ہوا ہو۔ ممکن ہے کہ کسی ایک واقعہ میں کسی خاص گروہ کے ہزار افراد کو تہ تیغ کر دیا  جائے، سو خواتین کو اغوا کر لیا جائے اور ان کا جنسی استحصال کیا جائے، جبکہ اس کے مقابل ایک واقعہ میں دس لاکھ افراد مختلف طریقوں سے قتل ہوں، ہزاروں خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا ہو، لوگوں کے اموال پر قبضہ کیا جائے اور متاثرین کی تعداد کروڑوں میں ہو تو ہر صاحب انصاف یہی کہے گا کہ دوسرا واقعہ زیادہ سنگین ہے، کیونکہ اس میں زیادہ انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اگر ہم دنیا میں ہونے والے نسل کشی اور نسلی صفائے کے واقعات کی فہرست کو دیکھیں تو ہم ان واقعات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

افغانستان میں امیر عبدالرحمن نے افغانوں اور انگریزوں کے مابین ہونے والی دوسری جنگ کے بعد ہزارہ کو اپنے زیر قبضہ لانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ایک اندازے کے مطابق امیر عبدالرحمن کی افواج نے 3,20,000 ہزارہ خاندانوں کو قتل کیا یا اسیر بنایا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں بالخصوص بنگالی ہندؤوں کی نسل کشی کے بارے کم سے کم تخمینہ 3 لاکھ افراد کے قتل کا ہے۔ بنگلہ دیش میں کتنی خواتین کا جنسی استحصال ہوا، یہ ایک شرمناک باب ہے، جسے میں یہاں تحریر نہیں کرنا چاہتا، جو لوگ اس موضوع پر مزید معلومات چاہتے ہیں، وہ متعلقہ کتب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اب تک ان کے کم سے کم 14 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 43 ہزار افراد قتل ہوچکے ہیں۔ مختلف ممالک میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے۔ ایک لاکھ افراد اس وقت بھی کیمپوں میں جدا کرکے رکھے گئے ہیں۔

تقسیم ہند اور پنجاب میں معاشرتی سطح پر نسل کشی

1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر پورے پنجاب کی کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.2 فیصد، ہندو 29.1 فیصد، سکھوں کی آبادی 14.9 فیصد جبکہ عیسائیوں کی آبادی 1.4 فیصد تھی۔ پنجاب پانچ ڈویژنز پر مشتمل تھا، جس میں لاہور ڈویژن، راولپنڈی ڈویژن، ملتان ڈویژن، جالندھر ڈویژن اور انبالہ ڈویژن شامل تھے۔ راولپنڈی ڈویژن میں اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، میانوالی اور شاہ پور کے اضلاع تھے۔ لاہور ڈویژن میں گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع شامل تھے۔ ملتان ڈویژن میں مینٹگمری (ساہیوال)، لائل پور(فیصل آباد)، ملتان، جھنگ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع تھے۔ جالندھر ڈویژن میں فیروز پور، لدھیانہ، ہوشیار پور، کانگڑہ کے اضلاع شامل تھے، جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔

ہندو، سکھ اور مسلمان پنجاب کے مختلف اضلاع میں مل کر رہ رہے تھے۔ نسل، زبان اور مشترکہ ثقافت ان کے درمیان وجہ اشتراک تھی، جبکہ تمام ادیان کے ماننے والے دوسرے کے دینی جذبات اور رسومات کا بھی احترام کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ مسلمان پیروں کے مرید تھے اور مسلمان ہندو اور سکھ ویدوں اور حکیموں سے علاج کروانے میں جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ ہندو کھانے کے حوالے سے احتیاط کرتے تھے، تاہم مسلمانوں سے پکانے کی اشیاء لے لیتے تھے۔ پنجاب کے مختلف ڈویژنز میں سلسلہ وار نسلی فسادات کا سلسلہ 1946ء میں شروع ہوچکا تھا، جس کے سبب بہت سے ہندو اور سکھ خانوادے پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوئے، تاہم 17 اگست 1947ء تک کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ دیس تقسیم ہوگا یا حالات معمول پر آئیں گے۔ 17 اگست 1947ء کو ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت تقسیم کا منصوبہ سامنے لایا گیا، جس سے سرحد کے دونوں جانب لاکھوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ سرحد کی غلط سمت میں موجود ہیں۔

سکھ سمجھتے تھے کہ لاہور، لائل پور، منٹگمری اور شیخوپورہ کے کچھ اضلاع مشرقی پنجاب کا حصہ بنیں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کا خیال تھا کہ جالندھر ڈویژن کے بعض اضلاع مسلم اکثریت کے سبب پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ سترہ اگست سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی ہجرت کا آغاز ہوا، جن میں سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق سرحد کے دونوں جانب 10 سے 30 لاکھ انسان راستے میں ہی موت کا شکار ہوگئے۔ باؤنڈری فورس جو حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی، قتل میں شریک ہوگئی۔ تقریباً 93 ہزار خواتین اغوا ہوئیں، جن میں سے اکثر بازیاب نہ کروائی جا سکیں۔ جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے گئے، اغوا شدہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور یہ واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے۔ دس لاکھ یا تیس لاکھ افراد کا قتل، ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی نقل مکانی، یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، جس کے عوامل اور اسباب کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ کوشش ہوگی کے کہ آئندہ کسی تحریر میں اس واقعہ کے تفصیلی عوامل اور اسباب پر بات کی جائے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Share this content: