لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی کے دھماکے
عام شہریوں کے استعمال میں آنے والی چیزوں کو ہتھیار کے طور پر نہیں استعمال کیا جانا چاہیئے، ایسا کہنا ہے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس کا۔ یہ بیان انھوں نے لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد دیا۔ رابطے کے لیے استعمال ہونے والے ان دونوں آلات کے دھماکوں میں اب تک تقریباً دو درجن سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ ان حملوں میں تقریباً دو سو کے قریب افراد شدید زخمی ہیں، جن میں لبنان میں تعینات ایرانی سفیر بھی شامل ہیں۔ غزہ پر 8 اکتوبر 2023ء کے حملے کے بعد حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے شمالی علاقوں پر حملہ کر دیا، جس سے اسرائیلی شمالی کمانڈ مکمل طور پر ان حملوں سے نمٹنے میں مصروف ہوگئی۔ گذشتہ ایک برس میں حزب اللہ لبنان اور اسرائیل دونوں ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جب تک غزہ پر حملہ نہیں روکا جاتا، لبنان بھی حملے بند نہیں کرے گا۔ اسرائیل نے اس جنگ میں اب تک حزب اللہ کے چار سو کے قریب جنگجوؤں اور اہم کمانڈرز کو شہید کیا ہے، جس میں حزب اللہ کی عسکری شوریٰ کے رکن فواد شکر بھی شامل ہیں۔
حزب اللہ نے فواد شکر کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل کے متعدد شہروں پر حملے کیے، جو کامیاب بھی ہوئے۔ ان اہم کارروائیوں میں اسرائیل کے اہم صنعتی شہر کی ڈرون فوٹیج بھی شامل تھی۔ حزب اللہ نے اسی طرح اپنی زیر زمین سرنگوں کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیلیوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے اہم کمانڈرز کو موبائل فون ٹریکنگ کے ذریعے تلاش کرنے کے بعد ان پر ڈرون اور میزائل حملے کیے۔ سید حسن کے حکم پر حزب اللہ کے اراکین اور اہم کمانڈرز نے موبائل کا استعمال ترک کر دیا اور رابطے کے لیے پیجر اور واکی ٹاکی استعمال کرنے لگے۔ پیجرز چھوٹے وائرلیس آلات ہیں، جو عام طور پر سیل فون کے بہت زیادہ عام ہونے سے پہلے مختصر ٹیکسٹ میسجز یا الرٹس بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ پیجر ڈیوائس کے ذریعے الرٹ بھی بھیجے جاتے ہیں۔ پیجر بذریعہ وائر لیس نیٹ ورک سگنل بھیجتا ہے۔ اسے اکثر ہسپتال اور سکیورٹی کمپنیاں استعمال کیا کرتی تھیں۔
حزب اللہ کے ایک کارکن نے اے پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ یہ پیجرز کا ایک نیا برانڈ تھا، جسے گروپ نے پہلے استعمال نہیں کیا تھا۔ لبنان کے ایک سکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ تقریباً پانچ ماہ قبل ملک میں 5000 پیجرز لائے گئے تھے۔ پھٹنے والے پیجرز کے ٹکڑوں پر نظر آنے والے لیبل جس ماڈل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اسے Rugged Pager AR-924 کہتے ہیں۔ تائیوان کی پیجر تیار کرنے والی کمپنی “گولڈ اپولو” نے کہا ہے کہ لبنان میں استعمال ہونے والے پیجر ان کی کمپنی نے تیار نہیں کیے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمپنی کے بانی سو چنگ کوانگ نے تائیوان کے شہر نیو تپائی میں کمپنی کے دفتر میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ پیجر یورپ کی بی اے سی (BAC) نامی ایک کمپنی نے تیار کیے ہیں، جس کے پاس “گولڈ اپولو” کا برانڈ استعمال کرنے کا لائسنس موجود ہے۔
کمپنی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ AR-924 ماڈل کے پیجر بی اے سی (BAC) نے تیار اور فروخت کیے تھے۔ “گولڈ اپولو” کے مطابق بی اے سی (BAC) کمپنی یورپی ملک ہنگری کے شہر بوداپسٹ میں واقع ہے۔ 17 ستمبر کو ہونے والے پیجر دھماکوں کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اس پیجر کے کسی الیکڑانک ڈیوائس میں بیس گرام دھماکہ خیز مواد لگا ہوا تھا، جو کسی سگنل کے بعد پھٹا اور اس سے سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہیک کیے جانے کی وجہ سے ان پیجرز کی بیٹریاں زیادہ گرم ہوسکتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے یہ پھٹ گئیں، لیکن بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے، دھماکوں کی فوٹیج بیٹریوں کے زیادہ گرم ہونے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ پیجرز کے ساتھ ان کی تیاری کے دوران یا ٹرانزٹ کے دوران چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور وہ اسے “سپلائی چین حملے” کا نام دیتے ہیں۔
برطانوی فوج کے سابق اہلکار اور ہتھیاروں کے ماہر نے کہا کہ ممکنہ طور پر پیجرز میں 10 سے 20 گرام فوجی گریڈ کا دھماکہ خیز مواد تھا۔ ان کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو ایک جعلی الیکٹرونک پرزے کے اندر چھپایا گیا ہوگا۔ برطانیہ میں قائم گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق لبنان سے باہر پڑوسی ملک شام میں اسی طرح کے دھماکوں میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ابھی تک کسی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم لبنان کے وزیراعظم اور حزب اللہ نے ان کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔ پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے بیک وقت ہوئے ہیں، جو ان آلات میں کسی خرابی کی نہیں بلکہ بیرونی مداخلت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ لیتھیم بیٹری کو گرم کرکے دھماکہ خیز مواد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے لبنان سے باہر یعنی شام میں بھی متعدد افراد ان حملوں میں زخمی ہوئے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی اور اسرائیلی حکام نے ایگزیوس کو بتایا کہ ان دھماکوں کی منصوبہ بندی ابتدائی طور پر حزب اللہ کے خلاف بھرپور حملے کا پہلا مرحلہ تھی۔ اسرائیلی حکام نے ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن زیادہ تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے۔ الجزیرہ کے دفاعی تجریہ کار علیجاہ کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے قبل عموماً پہلا حملہ کمانڈ اینڈ کنڑول پر کیا جاتا ہے، رابطے کے آلات کنٹرول کا نظام ہیں۔ مخالف کے رابطے کے نظام کو تباہ کرنا جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ حزب اللہ کے کمانڈرز کو اب موبائل فون یا لینڈ لائن کا استعمال کرنا پڑے گا، جس سے ان کو آسانی سے ٹریک کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل 2010ء سے علاقے کو آرٹیفشل انٹیلیجنس کے استعمال کے ذریعے دیکھ رہا ہے، انھوں نے اس کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھیک 24 گھنٹے کے بعد انھوں نے رابطے کے ایک دوسرے ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے حملے انجام دیئے ہیں۔
یہ حملے اگرچہ اپنی نوعیت کے انوکھے حملے ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سے حزب اللہ کے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ جلد قوم سے خطاب کریں گے، یقیناً روابط کے لیے استعمال ہونے والے آلات کو بدلا جائے گا اور حزب اللہ اسلامی جذبہ جہاد کے ساتھ اس نئے حملے اور حکمت عملی کا بھی ضرور توڑ نکالے گی۔ ان پیجرز اور واکی ٹاکیز کا فی الفور تجزیہ کروایا جانا چاہیئے اور اس کے پھٹنے کی وجہ کو تلاش کیا جانا چاہیئے، تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ آیا ان آلات میں دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا ہے یا لیتھیم بیٹری کو دھماکہ خیز مواد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر تو لیتھیم کو دھماکے کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو تمام وہ آلات جن میں لیتھیم بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں، ان کو احتیاط سے استعمال کیا جائے۔
Share this content: