تحریر: سید اسد عباس
مکتب تشیع کے پیروکار برصغیر میں صدیوں سے آباد ہیں، یہ طبقہ ہمیشہ دوسرے مسالک اور ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ مل کر قومی سیاست اور سماجی امور میں متحرک رہا۔ مغل دور میں ایک آدھے بادشاہ کے علاوہ حکمران فرقہ پرست نہ تھے، جس کے سبب ہر مذہب و مسلک کے افراد اپنی صلاحیت کے اعتبار سے معاشرے میں مقام و منزلت حاصل کرتے تھے۔ قاضی نور اللہ شوشتری اکبر کے زمانے میں قاضی القضاۃ مقرر ہوئے۔ اسی طرح بہت سے سادات کے خانوادے بلا تفریق مذہب و مسلک مغلوں کے منظور نظر رہے۔ مغلوں کے آخری دور میں مولوی سید محمد باقر دہلوی شہید نے پہلا اردو اخبار "دہلی اردو اخبار” کے نام سے شائع کرنا شروع کیا، جسے برصغیر میں صحافت کا نقطہ آغاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سید محمد باقر کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مولوی سید محمد باقر دہلوی نے اپنے اخبار کو تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ بنگال میں مغلوں کے شیعہ گورنرز، سلطنت میسور، اودھ اور تالپور سلطنت نے انگریز تسلط کا مقابلہ کیا۔ علامہ سید محمد باقر دہلوی سمیت متعدد شیعہ علماء 1857ء کی جنگ آزادی میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے توپوں کے آگے باندھ کر شہید کر دیئے گئے۔
تحریک پاکستان کے آغاز سے لے کر قیام پاکستان تک جدوجہد کرنے والی کچھ شیعہ شخصیات ایسی ہیں، جن کے تذکرے کے بغیر پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان نامکمل ہے۔ جن میں پہلے بانی پاکستان محمد علی جناح ہیں، آپ اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے، بعد میں آپ نے اثناء عشری مکتب کو قبول کیا۔ دوسری اہم ترین شخصیت سر آغا خان سوم ہیں، جو شش امامی شیعوں کے امام تھے اور 1906ء سے 1912ء تک مسلم لیگ کے پہلے صدر رہے۔ تیسری اہم ترین شخصیت راجہ امیر حسن خان آف محمود آباد ہیں، جن کی مالی امداد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر احمد خان (راجہ صاحب آف محمود آباد) راجہ بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سنہ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس اور بعد کی رابطہ عوام مہم کا خرچہ راجہ صاحب محمود آباد نے اٹھایا۔ آپ نے ہی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی، اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔
مرزا ابوالحسن اصفہانی بھی تحریک پاکستان کے سرگرم رہنماء تھے۔ حبیب بینک کے بانی سیٹھ محمد علی نے بھی متعدد مواقع پر تحریک پاکستان کی مالی مدد کی۔ 1948ء میں مفلوک الحال ریاست کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے 80 ملین روپے کا چیک قائد اعظم کو عطیہ کیا۔ پی آئی اے کی بنیاد رکھنے والے مرزا احمد اصفہانی مسلم کمرشل بینک کے بانی سر آدم جی، راجہ غضنفر علی خان اور نواب فتح علی خان قزلباش سمیت شیعہ شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے، جنھوں نے پاکستان کے قیام نیز اس کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمہ جناح، ملکہ اوَدھ صغریٰ بیگم، لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمہ صغریٰ کو تاریخ پاکستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کے لیے خدمات انجام دینے والی ہستیوں کو گننے بیٹھ جائیں تو شائد دفتر کے دفتر اس کے لیے ناکافی ہوں۔ غرض یہ کہ قومی سیاست اور خدمت میں شیعہ مکتب کا کردار کسی دوسرے مکتب یا مسلک سے کم نہیں ہے۔
آج بھی شیعہ مکتب کے افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شومی قسمت، ضیاء الحق دور میں نفاذ اسلام کے اعلانات کے ساتھ شیعہ قوم کو اپنے بنیادی انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور مسلکی تشخص کے حوالے سے تشویش لاحق ہوئی اور اسی زمانے میں شیعہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مسلکی تنظیم "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ” بنانے پر مجبور ہوئے۔ یہ تحریک وقت کی ضرورت تھی، جس کا مقصد اسلامی قانون سازی کے عمل میں شیعہ قوم کے لیے فقہ جعفریہ کا نفاذ تھا، اس سے قبل شیعہ ہمیشہ قومی سیاسی دھارے کا حصہ رہے۔ شیعہ قائدین بخوبی جانتے تھے کہ مکتب تشیع جن سیاسی اصولوں، رول ماڈلز اور شخصیات کی پیروی کرتا ہے، ان کا دائرہ کار مسلک تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانیت تک پھیلا ہوا ہے۔ (مظلوم کے حامی بنو اور ظالم کی مخالفت کرو) امیر المومنین ؑ نے نہیں کہا کہ فقط شیعہ مظلوم کی حمایت کرنا اور ظالم اگر شیعہ ہو تو اس کی مخالفت نہ کرنا۔
اسی طرح کربلا کا سرمدی پیغام کسی فرقہ، گروہ کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ ایسے میں کربلا کا پیروکار کیسے خود کو فقط مسلکی مفادات یا سیاست تک محدود رکھ سکتا ہے۔ مفتی جعفر حسین کے بعد شہید عارف حسین الحسینی نے قومی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ افغانستان، ایران عراق جنگ، امریکی مداخلت، داخلی مسائل، انتخابات ہر موضوع پر شہید کے خطابات، بیانات اور موقف موجود ہے۔ وہ تحریک جعفریہ کو مسلکی تنظیم نہیں بلکہ قومی سیاست میں فعال گروہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے قریبی رفقاء خود پر لگنے والی مسلکی تحریک کی چھاپ کو ختم کرنا چاہتے تھے، اسی لیے "ہمارا راستہ” کے نام سے ایک مفصل دستور تشکیل دیا گیا، جس میں قومی سطح کے تمام معاملات پر اپنے موقف کا اظہار کیا گیا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ تحریک جعفریہ اور شیعہ سیاسیات کے فعال رکن اور قائد سید ثاقب اکبر مرحوم چاہتے تھے کہ بلا تفریق مذہب و مسلک، قوم و فرقہ صالح اور خدا خوف افراد پر مشتمل ایک جماعت بنائی جائے، جو قومی سیاست میں اپنا کردار کرے۔ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کے وقت بھی ان کی یہی آرزو تھی کہ تمام مسلکی گروہ اور تنظیمیں جو دین و مذہب پر یقین رکھتی ہیں، مل کر قوم و ملک کی بہتری کے لیے میدان عمل میں اتریں۔ عمران خان سے سید ثاقب اکبر کی ملاقات نہیں تھی، تاہم وہ اس کے موقف کو سراہتے تھے اور اپنے سیاسی تجربہ کے تناظر میں اس کی حمایت کرتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سید ثاقب اکبر مرحوم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر نشر ہوئی، جس میں وہ تحریک انصاف کے دھرنے میں شریک ہیں اور نوجوانوں سے امریکہ مردہ باد کے نعرے لگوا رہے ہیں۔ راجہ ناصر عباس نے اکثر مواقع پر اس ویڈیو کا تذکرہ کیا، اسی ویڈیو کے بعد راجہ صاحب کی عمران خان سے ملاقاتوں میں تیزی آئی اور تحریک انصاف نیز مجلس وحدت مسلمین کے مابین ایک مشترکہ بیانیہ پر دستخط ہوئے۔
سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کے سیاسی موقف کے حوالے سے پاکستان کے سیاسی، سماجی حلقوں میں شیعہ مکتب کا کیا تعارف سامنے آرہا ہے، یہ ایک الگ بحث اور قابل غور نقطہ ہے، تاہم داخلی حلقوں میں اسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ کوئی اس کو اقتدار کی ہوس کہتا ہے، کوئی طالبان خان کی حمایت تو کوئی ایک خطرناک راستہ۔ میری نظر میں یہ وہی راستہ ہے، جس پر شہید حسینی چل رہے تھے، جس کی آرزو سید ثاقب اکبر مرحوم اور ان کے رفیق ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو تھی۔ یہ سید محمد باقر دہلوی شہید، قائد اعظم محمد علی جناح، راجہ صاحب آف محمود، ابو الحسن اصفہانی، راجہ غضنفر علی خان کا راستہ ہے، جس کے سبب ہمیں پاکستان حاصل ہوا۔ یہ ان کا راستہ نہیں، جو اشرفیوں میں اور ان سے کھیلتے ہیں۔
بشکریہ اسلام ٹائمز