Skip to content

سابقہ مشرقی پاکستان کے متحرک جوان

تحریر: سید اسد عباس

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی فکری بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی۔ بنگال کے مسلمان نوجوان، مسلم لیگ کا ہراول دستہ تھے، ان نوجوانوں نے گھر گھر جا کر دو قومی نظریہ کا پرچار کیا۔ اسی طرح 46 کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوانوں خواہ کسی بھی صوبے کے ہوں، ان کا مسلم لیگ کی تاریخی فتح میں کلیدی کردار ہے۔ ان نوجوانوں نے اکھنڈ بھارت کے نظریئے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ثابت کیا کہ بنگال کے مسلمان ایک الگ قومی تشخص رکھتے ہیں۔ ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس کی میزبانی کی۔ اے کے فضل حق شیر بنگال نے 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کی۔ خواجہ ناظم الدین جو قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل منتخب ہوئے۔ حسین شہید سہروردی جو تحریک پاکستان کی ایک مدبر شخصیت تھے، قیام پاکستان کے وقت بنگال کے وزیراعلیٰ تھے، بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے۔

میری چند ایک بنگالی پاکستانیوں سے ملاقات ہے، ان کے مزاج میں جرات، حرکت اور اصول پسندی موجود ہے، جبکہ پنجاب کے اکثر باسی ان کے مقابل اتنے متحرک نہیں ہوتے۔ میرے علم کے مطابق پنجاب تحریک پاکستان میں شامل ہونے والا شاید آخری صوبہ تھا۔ اس کے زیادہ تر قائدین خواہ سکھ ہوں یا مسلمان 1945ء تک یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ بنگالیوں کی تیزی اور جرات اظہار فطری طور پر انھیں تحریکوں کا حصہ بننے پر مجبور کرتی ہے۔ تشکیل پاکستان کے فوراً بعد بنگالی طلبہ کا مطالبہ سامنے آیا کہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ بنگالی بھاشا کو بھی قومی زبان قرار دیا جائے، جس کی قائد اعظم نے مخالفت کی۔ ہماری بدقسمتی کہیے یا کسی کی سازش، پاکستان کو اپنے قیام کے بعد ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ملک کے لیے آئین کی تشکیل کا کام مسلسل تعطل کا شکار رہا۔

1956ء میں پاکستان کے گورنر جنرل سکندر مرزا کی توثیق سے ایک پارلیمانی آئین منظور ہوا، جسے 1958ء میں صدر ایوب نے مارشل لاء لگا کر معطل کر دیا۔ 1962ء میں ایوب خان نے ملک کے لیے صدارتی آئین کی منظوری دی۔ معروف کالم نویس اور اینکر پرسن حامد میر اپنی تحریر "پاکستان کیوں ٹوٹا: ناقابل تردید حقائق” میں لکھتے ہیں: "بنگالی وزیر قانون جسٹس ریٹائرڈ محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو صدارتی آئین کے نفاذ سے روکنے کی کوشش کی۔ ان کی کتاب "ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم” میں جنرل ایوب خان کے ساتھ ان کی سرکاری خط و کتابت شامل ہے، جس میں وزیر قانون نے صدر پاکستان کو وارننگ دی تھی کہ صدارتی آئین پاکستان توڑ دے گا۔ ایوب خان نے اپنے بنگالی وزیر قانون کی وارننگ نظر انداز کر دی۔ ایوب خان اپنی ضد پر قائم رہے، انھوں نے ایک پنجابی جج، جسٹس ریٹائرڈ محمد منیر کو اپنا وزیر قانون بنا لیا۔ نئے وزیر قانون کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ کسی طرح بنگالیوں سے جان چھڑائیں۔

 جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب "فرام جناح ٹو ضیاء” میں لکھا ہے کہ 1962ء میں وزیر قانون بنانے کے بعد جنرل ایوب خان نے مجھے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک بنگالی وزیر رمیض الدین کے پاس بھیجا، تاکہ یہ پیغام پہنچا سکوں کہ "آپ الگ ہو جائیں یا کنفڈریشن بنا لیں۔” جسٹس محمد منیر کے مطابق رمیض الدین نے کہا کہ ہم اکثریت میں ہیں، آپ اقلیت ہیں، اگر آپ علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ہو جائیں، لیکن اصل پاکستان تو ہم ہیں۔ یہی وہ سال تھا، جب تحریک پاکستان کے رہنماء حسین شہید سہروردی کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو ڈھاکا میں پاکستان کے خلاف نعرے لگے۔ حسین شہید سہروردی کی نواسی بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ان کے نانا علاج کے لیے بیروت گئے، وہاں ان کی پراسرار حالات میں موت ہوگئی۔ ہم انھیں مغربی پاکستان میں دفن کرنا چاہتے تھے، لیکن جنرل ایوب خان نے اجازت نہ دی، لہٰذا ان کی تدفین ڈھاکا میں ہوئی۔”

فاطمہ جناح مغربی پاکستان میں انڈین ایجنٹ قرار پائیں اور شیخ مجیب ڈھاکا میں  سازش کا مرتکب قرار دے دیا گیا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا دیا۔ آج بہت سی ایسی کتب موجود ہیں، جو تقسیم پاکستان کے حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ حامد میر لکھتے ہیں: "جنرل (ر) راؤ فرمان علی اپنی کتاب "How Pakistan got divided” میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں فوج نے اپنے قید خانے اور عدالتیں بنا رکھی تھیں اور سویلین کو بغیر وجہ اٹھا لیا جاتا تھا۔ کئی دانشوروں کو میری مداخلت پر رہا کیا گیا۔ مشرقی پاکستان فرائض سرانجام دینے والے میجر جنرل ابوبکر عثمان مِٹھا نے اپنی کتاب "بمبئی سے جی ایچ کیو تک” میں لکھا ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے مشرقی پاکستان میں، جن کو غائب کر دیتے تھے، ان میں 90 فیصد مسلمان ہوتے تھے۔ ان حرکتوں سے پاکستان کے حامی ہمارے مخالف بن گئے۔”

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں مکتی باہنی اور ہندوستان کا کردار کسی سے پنہاں نہیں، تاہم درج بالا اعترافات اور حقائق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ  ان دونوں کرداروں کو مداخلت کا موقع ہم نے مہیا کیا۔ انصاف پسند لکھاریوں کے مطابق ملٹری اور سول بیوروکریسی سے بنگالیوں کو دور کر دیا گیا تھا۔ آئین کے تعطل، سیاسی محرومی، جبر اور ناانصافی نے بنگالیوں کو جدا ہونے پر مجبور کیا۔ نہیں معلوم ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں یہ سوال قارئین کے لیے چھوڑے دیتا ہوں، تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ آئین کے تعطل اور جبر کا نتیجہ تقسیم کے سوا کچھ نہیں۔ آج بنگلہ دیش ایک مرتبہ پھر انقلابات سے گزر رہا ہے۔ ایک بنگالی نوجوان شریف عثمان ہادی اس وقت میڈیا کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے، جس کے جنازے میں لاکھوں بنگالیوں نے شرکت کی۔ جنازے کے شرکاء ایسے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، جیسے ان کا سگا بھائی یا بیٹا دفن ہو رہا ہو۔

شریف عثمان ہادی 1991ء میں بنگلہ دیش کے ضلع جھالاکاٹھی کے علاقے نالچٹی میں پیدا ہوا۔ ہادی نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی اور بعد ازاں ڈھاکہ یونیورسٹی سے سیاسیات (Political Science) میں ڈگری حاصل کی۔ وہ استاد، مصنف اور سیاسی کارکن تھا۔ وہ بنگلہ دیشی نوجوانوں کی انقلابی تنظیم منچہ کا بانی رکن اور ترجمان تھا، جس کی سیاسی جدوجہد کے سبب شیخ حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑ کر ہندوستان فرار ہونا پڑا۔ ہادی ان نوجوانوں میں سے ایک تھا، جو بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارتی رسوخ کے سخت نقاد تھے۔ یہ نوجوان 71 جنگ کے فوجیوں کے بچوں کے لیے تیس فیصد کوٹہ کے مخالف تھے، حسینہ واجد نے طلبہ کو رضاکار (پاکستان کی حمایت کرنے والے) کہا، جس سے ان نوجوانوں میں اشتعال بڑھا۔ عثمان ہادی نے کوٹہ کی تحریک کو فاشزم کے خلاف تحریک بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 5 اگست کو عثمان ہادی سمیت دیگر راہنماؤں نے مارچ ٹو ڈھاکہ کی کال دی، جس کے بعد شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

انقلابی منچہ کے بہت واضح مطالبات ہیں، جن میں بھارتی مداخلت کا خاتمہ، تمام دنیا سے برابری کی سطح پر تعلقات، عوامی لیگ کی سیاست پر پابندی، بیوروکریسی سے ان افراد کا صفایا جو گذشتہ حکومت کے وفادار ہیں۔ بنگلہ دیش میں نصاب تعلیم سے غیر اسلامی نظریات کا خاتمہ، اسلامی شعائر اور بنگالی قومیت کے امتزاج پر مشتمل ریاست۔ عثمان ہادی فروری 2026ء کے انتخابات میں ڈھاکہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے، انھیں 12 دسمبر 2025ء کو آٹو میں سفر کرتے ہوئے گولی ماردی گئی، ہادی 18 دسمبر 2025ء کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سنگاپور میں خالق حقیقی سے جاملے۔ ہادی کا یہ جملہ بہت معروف ہے کہ اگر مجھے مار دیا جائے تو کیا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر پچاس برس زندہ رہوں اور اپنے ملک یا ملت کے لیے کچھ نہ کر سکوں تو ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں، جبکہ اگر میں پانچ برس میں کچھ ایسا کر جاؤں، جس سے ملک کی تقدیر بدل جائے تو یہ میرے نزدیک اہم ہے۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز