اوینجیلیکل، صہیونی مسیحیت (۲)
اپنی گذشتہ تحریر”اوینجیلیکل، صہیونی مسیحیت” میں راقم نے مسیحیوں کے مختلف فرقوں کے اجمالی فرق اور مشترکات کو بیان کیا نیز یہ بھی بتایا کہ یورپ میں سیکولرزم سے کیا مراد ہے اس کی ابتداء کیسے ہوئی۔ پروٹیسٹنٹ فرقہ کیسے وجود میں آیا اور اوینجیلیکلز کیا ہیں۔ ان معلومات کے حوالے سے یورپ میں مقیم اپنے دوست کا نہایت شکر گزار ہوں جو مجھے اس معاشرے کے حوالے سے عینی شہادت اور تجزیہ پر مبنی معلومات مہیا کر رہے ہیں۔ مسیحی فرقوں کا موضوع اتنا سادہ نہیں ہے کہ اسے چند تحریروں کے ذریعے سمجھا جا سکے۔ نہ ان کے اختلافی عقائد کو اتنی مختصر تحریروں میں سمیٹا جاسکتا ہے تاہم بعض مشترکات ایسے ہیں جن کو بیان کیا جاسکتا ہے یا بعض ایسی خصوصیات ہیں جو مختلف مسالک کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔
یورپ میں مقیم میرے دوست جو کہ پی ایچ ڈی اسکالر بھی ہیں نے مجھے بتایا کہ مسلمانوں میں خود کو مساجد کے ہمراہ رجسٹرڈ کروانے کا رواج نہیں ہے۔ نکاح یا جنازہ کوئی بھی دین کا علم رکھنے والا شخص پڑھ سکتا ہے مگر مسیحی جب تک کسی چرچ کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہو نہ اس کا نکاح ٹھیک ہے نہ جنازہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اوینجیلیکلز جو یورپ میں تیزی سے پھیل رہے ہیں کے ہاں زنا حرام ہے لیکن مختصر کپڑے، گانا بجانا، داڑھی مونڈنا، شراب پینا نہیں، یہ لوگ سرخ وائن کی تاویل اس خون کے طور پر کرتے ہیں جو عیسی علیہ السلام کے حواریوں کو پلایا گیا تھا۔ لہٰذا ان کے مذہبی ہونے کا پیمانہ اسلامی شریعت کی پابندی کو بنانا بیوقوفی ہے۔ یہ لوگ حمل ضائع کرنے اور ہم جنس پرستی کے سخت خلاف ہیں۔ ان کے خلاف تبلیغ بھی کرتے ہیں لیکن آخر میں یہی کہتے ہیں کہ ظہور ہوگا تو یہ سب برائیاں ختم ہونگی۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یورپ میں زنا، جوئے، سود وغیرہ پر پابندی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ترویج کی جاتی ہے، اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست اس سے روکتی نہیں اور صرف شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یورپ کے ایوینجیلیکل مسیحی کو یہ سب دیکھ کر غصہ آتا ہے تو وہ یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہے کہ اسے حضرت یسوع مسیح کے ظہور کا انتظار کرنا چاہیئے۔ یہاں انتظار سے مراد ظہور میں تعجیل کے لیے کوشش کرنا لیا جاتا ہے۔ یوں منکرات کے خلاف پیدا ہونے والا غصہ بھی ظہور کی راہ ہموار کرنے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ایوینجیلیکل مسیحی زیادہ سرگرمی سے فلسطین سے غیر یہودی لوگوں کے اخراج کی کوشش کرتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لبرل قوانین سب سے پہلے مغرب کے انہی حصوں میں لاگو ہوئے جہاں ایوینجیلیکل مسیحیت کا غلبہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول عام ایوینجیلیکل نوجوان گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، اگر کوئی گناہ کرے تو نادم ہوتا ہے۔ جو چرچ کے زیادہ قریب ہو وہ شادی سے پہلے جنسی تعلق نہیں بناتا۔ چنانچہ نوجوانی میں شادیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن منکرات کے خلاف اس کا غصہ ظہورِ مسیح کی راہ ہموار کرنے، یعنی اسرائیل کے دائیں بازو کی حمایت کرنے اور چندہ دینے، پر خرچ ہوتا ہے۔ یوں ایک لوہار کی، سو سنار کی، کے مطابق وہ ظہور کروا کر لوہار کی ایک ضرب سے سب منکرات کے خاتمے کا ماسٹر پلان بنائے ہوئے ہے۔ اب اس پلان میں کتنے فلسطینی مرتے ہیں، اس کی بلا سے!
صہیونیت
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ مسیحیوں میں صہیونیت یہودیوں سے پرانی ہے۔ صہیون فلسطین کے مقدس شہر بیت المقدس میں واقع ایک پہاڑی ہے جسے حضرت داود علیہ السلام نے فتح کیا تھا۔ اسی پہاڑی کی نسبت سے صہیونی کی اصطلاح سامنے آئی۔ اصطلاحا اس شخص کو صہیونی کہا جاتا ہے جو بائیبل اور مقدس متون پر اعتقاد رکھتے ہوئے یہودیوں کے اس سرزمین پر لوٹ جانے کے حق کو قبول کرتا ہے اور اس کی مخالف نہیں کرتا۔ اب یہ شخص خواہ یہودی ہو یا عیسائی، مسلمان ہو یا کوئی اور وہ اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ صہیونی ہے اور جو اس عقیدے کا مخالف ہے خواہ کسی مذہب سے ہو اینٹی زیونسٹ ہے۔
پہلا یہودی جس نے یہودی قومی ریاست کی بات کی یہودہ الکلائی ہے۔یہ سرایوو میں پیدا ہوا اور بوسنیا کی قومی تحریک سے متاثر ہوا، اس نے یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کا تصور پیش کیا۔ تھیوڈور ہرٹزل (1904) جسے جدید صہیونیت کا بانی سمجھا جاتا ہے کے پڑدادا یہودہ الکلائی کو جانتے تھے اور انہوں نے اس کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ یہودہ الکلائی علم الاعداد یا یہودی تصوف جسے “کبالا” کہا جاتا ہے کا ماہر تھا۔ الکلائی کا کہنا تھا کہ علم الاعداد اور کبالا کی روشنی میں وہ کہ سکتا ہے کہ یہودی انیسویں صدی کے وسط میں یروشلم کو دوبارہ حاصل کر لیں گے، لہذا دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل میں اکٹھا ہونا چاہیئے اور وہاں ایک یہودی ریاست قائم کرنی چاہیئے۔ قدامت پسند یا آرتھوڈاکس یہودی اس نظریے کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فقط “مسایا”یہودیوں کو اس مقدس سرزمین پر لے جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل یہودیوں کی قومی ریاست کا قیام خدا کے احکامات سے سرتابی ہے۔
یہودہ الکلائی کے علاوہ ایک اور یہودی سوی ہیچ (1874ء) نے بھی یہودی ریاست کے قیام کا نظریہ پیش کیا جو بعد میں متعدد سیکولر یہودیوں نے اختیار کرنا شروع کیا جن میں جرمن کیمونسٹ یہودی موزز ہس (1862)، فرانسیسی صیہونی لیون پنکسر (1882) قابل ذکر ہیں۔ اس زمانے میں قدامت پسند یا آرتھوڈاکس یہودیوں نے فلسطین کی جانب ہجرت کو گناہ قرار دیا اور ریاست کے قیام کو احکام الہی کی خلاف ورزی گردانا۔ مذہبی یہودی آج بھی سیکولر بنیادوں پر قائم یہودی قومی ریاست کو تورات کے خلاف سمجھتے ہیں تاہم مقدس سرزمین پر رہنے کو جائز جانتے ہیں۔ تورات پر یقین رکھنے والے یہودیوں کے مطابق صیہونی ریاست “سیکولر قومی ریاست” ہے جس کا یہودیت (مذہب) سے کوئی واسطہ نہیں۔ Torah Jew نامی تنظیم آج بھی اس ناجائز ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ ان مذہبی یہودیوں کے مقابل تھیوڈور ہرٹزل اور دیگر سیکولر یہودیوں نے امام کے بجائے امت کے حضور کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے کہا کہ مسایا کوئی شخص نہیں بلکہ یہودی ہیں جنہوں نے انسانیت کو نجات دلوانی ہے۔ بہرحال اس کے اس نظریے کو مذہبی حلقوں میں پذیرائی نہ ملی۔
مسیحی صہیونی
پروفیسر ڈان ویگنر اپنی کتاب “Anxious for Armageddon” میں صہیونی مسیحیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: “صہیونی مسیحیت پروٹسٹنٹ مسیحیت کی ایک تحریک ہے جو جدید اسرائیلی ریاست کے قیام کو بائیبل کی پیشینگوئی کی تکیمل سمجھتی ہے لہذا اس کی بلامشروط معاشی، اخلاقی، سیاسی اور مذہبی حمایت ضروری ہے”۔ یہودی صہیونیت کے برعکس مسیحی صہیونیت ایک مذہبی عقیدہ ہے۔ اس کی ابتداء سولہویں صدی عیسوی میں پروٹیسنٹنٹ فرقے کے تشکیل کے فورا بعد ہوگئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہودی حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ فقط نبی نہیں مانتے بلکہ ان کی طاہر ولادت کے بھی قائل نہیں ہیں تاہم کیلون کے شاگردوں نیز پروٹیسٹنٹ مسیحیوں نے اپنی تحریروں میں اس بات کی ترویج کی کہ تمام یہودی آخری زمانے میں مسیحیت کو اختیار کرلیں گے اور یہ واقعہ فلسطین کی سرزمین پر وقوع پذیر ہوگا۔ یہ بات پروٹیسٹنٹ عیسائی اصلاح پسندوں مارٹن بوسر (1551) اور پیٹر مارٹائر (1562) نے بائیبل کی آخری زمانے کے حوالے سے پیشین گوئیوں کے ذیل میں لکھی اور یہ کتاب جینیوا بائیبل کے نام سے چھپی۔
انہی نظریات سے متاثر ہوکر برطانیہ میں 1808ء میں پروٹیسنٹ مسیحیوں نے یہودیوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے پہلی صہیونی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اسی زمانے میں نپولین بونا پارٹ (1821) نے بھی یہودیوں سےایک قومی ریاست کا وعدہ کیا۔ مورخین کے مطابق اس وعدے کی وجہ شاید برطانوی یہودی خاندان رتھس چائلڈ سے جنگ کے لیے سرمایہ کا حصول تھا۔ رتھس چائلڈ خاندان اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے نپولین اور برطانیہ دونوں کو مالی مدد کی جبکہ ان دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں۔ برطانیہ کا پروٹیسٹنٹ مسیحی لارڈ شافٹبری (1885) یہودیوں کی فلسطین ہجرت میں اہم کردار کا حامل ہے، اس نے نہ فقط برطانیہ کے زیرقبضہ علاقوں میں یہودیوں کے قبائل کے بارے تحقیق کروائی بلکہ برطانوی چرچ کے ایک بشپ کو یہودی ریاست کے قیام کے امکانات جانچنے کے لیے فلسطین بھیجا۔
لارڈ شافٹبری لکھتا ہے: “یہودیوں کو ایک مرتبہ پھر یہودیہ اور جولان میں بڑی تعداد میں واپس جانا چاہیئے، وہ نہ فقط نجات کے مستحق ہیں بلکہ مسیحیوں کی نجات کی بنیادی امید ہیں”۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے یورپی یہودی فقط یورپ میں مقید یہودیوں کی نجات کے متمنی تھے ان کا دنیا میں بسنے والے دیگر یہودیوں سے رابطہ نہ تھا۔ عرب علاقوں میں آباد آٹھ لاکھ یہودی، ہندوستان اور دیگر ممالک میں آباد یہودی انہی انگریز اوینجیلیکلز نے اسرائیل پہنچائے کیونکہ یہودیوں کا اس علاقے پر تسلط ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور اور مسیحیوں کی نجات کی امید تھا۔ یہ سب کام ایک مذہبی سپاہی اور مشنری کے طور پر کیا گیا۔ پہلی صہیونی کانفرنس میں تین صہیونی مسیحیوں نے شرکت کی جن میں سے ایک پادری ولیم ہیشلر (1931) ہے۔ جدید صہیونیت کا بانی تھیوڈور ہڑٹزل اپنی ڈائری میں ولیم ہیشلر کے بارے لکھتا ہے: “اس شخص کے میری سوچ پر گہرے اثرات ہیں ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسرائیلی ریاست کا قیام ایک اہم نبوی کام ہوگا ۔ اس نے مجھے کہا کہ یہودی فلسطین کو دوبارہ حاصل کریں گے۔تھیوڈور ہرٹزل لکھتا ہے کہ ولیم نے مجھے کہا کہ ہم مسیحیوں نے آپ کے ماحول سازگار کر دیا ہے “۔
برطانیہ کی شاہی حکومت اور اس کی سر برآوردہ شخصیات نے اسرائیل کی تشکیل میں جو کردار ادا کیا وہ ہمارے سامنے ہے، یہ سب کام اوینجیلیکل مسیحیوں کا کام تھا۔ مسیحی صہیونیت کا نظریہ فقط برطانیہ میں نہیں تھا جیسا کہ ہم نے قبل ازیں ذکر کیا کہ پروٹیسٹنٹ مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد امریکا میں آباد ہے اور اوینجیلیکلز کا عنوان جو کہ پروٹیسٹنٹ مسیحی اپنے لیے اختیار کیے ہوئے ہیں، اس وقت امریکا کا اکثریتی فرقہ ہیں۔ اس فرقے کے اثرات امریکی اور یورپی سیاست پر بہت گہرے ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی، جوزف بائیڈن کے علاوہ تمام امریکی صدور اوینجیلیکلز تھے۔ امریکی افواج میں افسران اور فوجیوں کی ایک بڑی تعداد اوینجیلیکل مسیحیوں پر مشتمل ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا اور یورپ میں فلسطین یا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کبھی بھی آواز نہیں بلند کی گئی۔
اس وقت جو امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج جاری ہے اس میں ایک بھی اوینجیلیکل استاد یا شاگرد تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ مذہبی طور پر یہ باور کرلیا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدام کی مخالفت کرنا حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہے۔ لبرل، سیکولر، کیتھولک اساتذہ اور طلبہ نے امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی مگر اس کو جبر اور طاقت سے دبا دیا گیا۔ امریکہ فقط یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کا نام نہیں۔ گذشہ ستر سے زائد برسوں میں امریکا نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کیا ہے، امریکی حکومت امداد کی مد میں لاکھوں ڈالر اسرائیل کو دیتی ہے۔ اسرائیل کے دفاع کو امریکا کے لیے لازم گردانا جاتا ہے۔
یمن حملہ کرے، عراق حملہ کرے، لبنان سے حملہ ہو یا ایران کوئی کارروائی کرے امریکی افواج اسرائیل کے دفاع کے لیے اپنے بحری بیڑے خطے میں پہنچا دیتی ہیں۔سفارتی سطح پر کبھی بحرین کو تعلقات بحال کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے، کبھی قطر پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، کبھی عرب امارات کی منت کرتے ہیں تو کبھی سعودیہ کو آمادہ کرتے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرلیں۔ 1948ء سے 2024ء تک امریکا ایسے اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے جیسے بگڑی ہوئی اولاد کی عیاش باپ پشت پناہی کرتا ہے، تاہم افسوسناک ترین امر یہ ہے کہ ایسا سب کچھ مذہب کے نام پر کیا جارہا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
ممکن ہے بعض امریکی اور یورپی سیاستدان ان باتوں پر یقین نہ رکھتے ہوں، تاہم وہ اس وقت تک کرسی اقتدار پر نہیں بیٹھ سکتے جب تک وہ ان باتوں کو قبول کرنے کا اقرار نہ کریں۔ امریکی صہیونی لابی کے سامنے جاکر قسم نہ کھائیں کہ وہ اسرائیل کا دفاع کریں گے۔ اسرائیل پر کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ شمال مغربی یورپ کے بڑے ممالک کی بھی تقریبا یہی صورتحال ہے اور اس سب کے پیچھے اوینجیلیکلز کا وہ عقیدہ ہے جسے پروفیسر ڈان ویگنر نے اپنی کتاب “Anxious for Armageddon” میں لکھا: “صہیونی مسیحیت پروٹسٹنٹ مسیحیت کی ایک تحریک ہے جو جدید اسرائیلی ریاست کے قیام کو بائیبل کی پیشنگوئی کی تکیمل سمجھتی ہے لہذا اس کی بلامشروط معاشی، اخلاقی، سیاسی اور مذہبی حمایت ضروری ہے”۔
Share this content: