انسانیت سوز جرائم کے جواز کیلئے مذہبی چھتری کا استعمال
تحریر: سید اسد عباس
مذہب جس کے لیے قرآن کریم میں دین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، زندگى کا علم ہے۔ یہ ایسا علم ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے، جو زندگى کے تمام مسائل پر حاوى ہے اور زندگى مىں روحانی فلسفہ حیات کے ذریعے توازن اور مقصدىت پىدا کرتا ہے۔ دین انسانى زندگى کے تمام شعبوں کو نظر مىں رکھ کر اصول نافذ کرتا ہے۔ جب تک ہم مختلف علوم کو زندگى ہى کى تفسىر و تشرىح کى حیثیت سے نہ دىکھىں اور ان کو لازم و ملزم سمجھ کر انھىں وحدت مىں نہ تبدىل کر دىں، اس وقت تک ہم ذہنى انتشار سے نجات نہىں حاصل کرسکتے اور نہ زندگى کے علم یعنى دین کو سمجھ سکتے ہىں۔ خداوند کریم نے قرآن کریم میں اسلام کو دین کے طور پر متعارف کروایا یعنی آدم سے خاتم المرسلین تک تمام پیغمبر جس پیغام کو انسانیت تک پہنچا رہے تھے، وہ ایک ہی دین تھا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ دین دار ہونے کا ہرگز ىہ مطلب نہىں کہ ہم دین سے پورى طرح واقف ہىں۔ مسلمان گھرانے مىں پىدا ہونے والا ہر بچہ مسلمان ہوتا ہے، تاہم اسلام کو وہى سمجھتا ہے اور سمجھ سکتا ہے، جو اسے سمجھنے مىں وقت صرف کرے اور اس کے مطالعہ کے لىے اپنى زندگى کو وقف کردے۔
دین اور اسلام کی عظمت و رفعت کو سمجھنے والے ہی اس دین کو پہنچانے والوں نیز اس کی قیادت کرنے والوں کی عزت و رفعت کو سمجھ سکتے ہیں۔ دینی قیادت بیک بینچرز کا کام نہیں ہے۔ اسی لیے یہ ذمہ داری ہر زمانے میں چنیدہ اشخاص کے سپرد کی گئی۔ امتوں نے جب اس ذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دینی قیادت میں تصرف کیا تو اس کے نتیجے میں جمود، تعصب، جہالت اور ظلم کو رواج ملا۔ دین کے نام پر قتل و غارت، معاشرتی جرائم اور ناانصافی کا دور دورہ ہوا۔ انسانی زندگی میں توازن اور مقصدیت لانے والا علم عدم توازن اور ظلم کا باعث بن گیا۔ جس کی مثالیں آج بھی ہم اپنے معاشروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ معاشرتی بے اعتدالیوں اور انسانیت سوز اقدامات کے لیے مذہبی چھتری کا استعمال انسانیت کا قبیح ترین فعل ہے، جس کو مذہبی ضرورت کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔
کسی بھی انسان کا ناحق قتل، بچوں کا قتل، خواتین کا قتل، بوڑھوں کا قتل، نسل کشی، انسانوں کو زندہ جلانا، نقل مکانی، انسانی آبادی کو جبری طور پر بھوک اور افلاس میں مبتلا کرنا، صحت کے مراکز پر حملے، تعلیمی اداروں پر حملے، وسائل زندگی کو تباہ کرنا، ضروریات زندگی تک رسائی کو مسدود کرنا، بنیادی انسانی حقوق کو غصب کرنا، یہ تمام اقدامات تقریباً ہر موجود مذہب میں جرم ہیں۔ اگر مذکورہ بالا کاموں کو مذہبی ضرورت یا مصلحت کے طور پر پیش کیا جائے تو سب جائز ہو جاتا ہے۔قاتل خود کو مشنری سمجھنے لگتا ہے، مجرم خود کو مجاہد کی نظر سے دیکھتا ہے۔ انسانیت کے خلاف جرائم مذہبی مصلحت کا روپ دھار لیتے ہیں اور جائز قرار دے دیئے جاتے ہیں۔
فلسطین میں ہونے والے مظالم پر ہی نظر کریں، یہودی ریاست کے قیام کے حامی ہزاروں انسانوں کے قتل، لاکھوں کی نقل مکانی، بھوک افلاس، بنیادی انسانی حقوق تک عدم رسائی کو فقط اس لیے جائز سمجھتے ہیں کہ اس کا ہدف ایک ایسی ریاست کا قیام ہے، جس کا تذکرہ مذہبی متون میں موجود ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دین موسوی کی اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مسیحی ریاستیں اپنی مذہبی اخلاقیات اور دینی احکامات کو فقط اس لیے پس پشت ڈال دیتی ہیں کہ اس ذریعے سے ایک ایسا ہدف حاصل ہو رہا ہے، جو کہ مذہبی پیشین گوئیوں کا حصہ ہے۔ اوینجیلکل مسیحی کا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک فلسطین کی سرزمین پر یہودی ریاست قائم نہ کی جائے اور دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر جمع نہ کیا جائے۔
اوینجیلکز کا ایمان ہے کہ اس ریاست کے قیام کے بعد ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ ظہور فرمائیں گے اور ان یہودیوں کو مسیحی بنائیں گے۔ اسرائیل کے قیام سے قبل برطانوی لارڈز نے دنیا بھر میں محققین بھیجے، تاکہ وہ یہودی قبائل کو تلاش کریں اور ان کو فلسطین کی سرزمین پر جمع ہونے کے لیے آمادہ کریں۔ یہودیوں کو یورپ میں مسائل تھے، تاہم پوری دنیا سے یہودی اسرائیل لائے گئے۔ عرب علاقوں، ہندوستان اور افریقہ سے یہودی خاندان اسرائیل منتقل کیے گئے اور یہ سب کرنے والے اوینجیلیکل مسیحی لارڈذ تھے۔ برطانوی حکومت کو اعلان بالفور پر مجبور کرنے والے بھی یہی اوینجیلیکلز تھے، جنھوں نے مذہبی متون کے مطابق یہودی ریاست کے قیام کو اپنا ہم و غم بنا لیا تھا۔ اس کام کے لیے فلسطینی عربوں کو ان کی آبائی سرزمینوں سے بے دخل کرنا، ان کو قتل کرنا، لوٹ مار کرنا، سب کچھ جائز ہوگیا۔ نہ فقط جائز ہوگیا بلکہ یہ کام کرنے والوں کو مشنری اور ہیرو کا لقب دیا گیا۔
آج امریکی صدور اور امریکی حکومتیں اسرائیل کو ہزاروں ٹن بارود فقط اسی لیے مہیا کرتی ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا اس علاقے سے صفایا کرسکے۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت میں تقریباً پچاس ہزار فلسطینی شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، ہزاروں زخمی ہیں، کیا مسیحیت اس سب کی اجازت دیتی ہے، بالکل نہیں، لیکن یہودی ریاست کے قیام کی پیشین گوئی کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس سب کو انجام دیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم کرنے والا خود کو مجرم اور قاتل نہیں بلکہ مسیحیت کا ہیرو سمجھ رہا ہے۔ ٹرمپ کو دی کنگ کے لقب سے نوازا جا رہا ہے۔ ایک ہزار کے قریب اوینجیلیکل فلاحی ادارے یہودیوں کو مقبوضہ علاقوں میں آباد کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ کیا ان مسیحیوں کو دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے، ان کے حقوق غصب ہو رہے ہیں، وہ بے گھر ہو رہے ہیں، سب دکھائی دیتا ہے، تاہم مذہبی مصلحت کا یہی تقاضا ہے۔ اس لیے امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک کبھی بھی اسرائیل کے خلاف واضح موقف اختیار نہیں کرتے۔
یہودی اور مسیحی تو ایک جانب مسلمان بھی انسانیت سوز جرائم کے جواز کے لیے مذہبی چھتری کا استعمال کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ شام میں علویوں، دروزیوں اور کردوں کو اسلامی حکومت کے استحکام کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے۔ دروزی خواتین کو لونڈیوں کے طور پر فروخت کیا گیا۔ تقسیم ہند اور تقسیم بنگال کے وقت مسلمانوں نے سکھ اور ہندو خواتین کا بے دریغ استعمال کیا۔ اموال کو لوٹا گیا، نہتے لوگوں پر حملے کرکے ان کو قتل کیا گیا اور ایسا کرنے والے مجاہد اور غازی کہلائے۔ کوئی بھی الہیٰ دین انسانیت کے خلاف جرائم اور ناحق ظلم کو قبول نہیں کرتا، نہ اس کے لیے جواز فراہم کرتا ہے، تاہم مذہبی مصلحت کے نام پر یہ سب قبول کیا جاتا ہے اور مجرموں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ انسانیت کو اس اہم مسئلہ پر توجہ کی ضرورت ہے کہ مذہبی چھتری کو اس مذہب کے بنیادی اصولوں، اخلاقیات اور احکامات کے خلاف استعمال کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے۔
Share this content: