×

توہین صحابہؓ و اہلبیتؑ بل، 298 اے میں ترمیم کیسے ہوئی؟

توہین صحابہؓ و اہلبیتؑ بل، 298 اے میں ترمیم کیسے ہوئی؟

سید اسد عباس
تحریر: سید اسد عباس

پاکستان کا ایوان زیریں یعنی پارلیمنٹ 336 اراکین پر مشتمل ہے، اس میں سے اس وقت ایوان میں 175 منتخب اراکین موجود ہیں، 36 خواتین ہیں، جو مخصوص نشستوں پر آئی ہیں، 6 غیر مسلم، یعنی اس وقت ایوان زیریں کل 217 ارکین پر مشتمل ہے۔ باقی کے اراکین پارلیمان کا بائیکاٹ کرچکے ہیں یا استعفیٰ دے چکے ہیں۔ بقول تاج حیدر سینیٹر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمان کے کل آٹھ ممبران نے مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ء کے ایکٹ 45 کی شق 298 اے میں ترمیم کی منظوری دی۔ پاکستان کا سینیٹ یعنی ایوان بالا 100 اراکین پر مشتمل ہے، جس میں سے کل 20 اراکین نے اس حساس ترین قانون سمیت 122 بلوں کی منظوری دی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور سینیٹر پاکستان پیپلز پارٹی تاج حیدر نے حامد میر کے پروگرام میں بتایا کہ ہمارے سامنے 122 قوانین کا ایک پلندہ رکھا گیا کہ ڈیڑھ گھنٹے میں آپ کو ان قوانین پر رائے دینی ہے۔

سینیٹر سیف ابڑو نے کہا کہ میں یہ بل اٹھا کر ہر ممبر کے پاس گیا کہ یہ ایک حساس نوعیت کا بل ہے، اس کو کمیٹی میں جانا چاہیئے، سینیٹر تاج حیدر کہتے ہیں کہ ہمیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ یہ بل کمیٹی میں جائے گا، لیکن اس حساس ترین بل کو کمیٹی میں لے جائے بغیر باقی 122 بلوں کے ساتھ منظور کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ء کے ایکٹ 45 کی شق 298 اے کی ترمیم کیا ہے اور اصل قانون کیا ہے۔ تعزیرات پاکستان جسے پاکستان پینل کوڈ بھی کہا جاتا ہے، تعزیرات ہند کا بغل بچہ ہے۔ تعزیرات ہند 1860ء میں برطانوی حکومت نے تشکیل دیا۔ اس قانون کو 1862ء میں نافذ کیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اس قانون میں بہت سی دفعات کا اضافہ کیا گیا اور اسے تعزیرات پاکستان کا عنوان دیا گیا۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 کا تعلق توہین مذہب سے ہے۔ دفعہ 298 کے مطابق کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر کوئی لفظ کہنا، آواز نکالنا یا کوئی چیز سامنے لانا جرم ہے اور اس جرم کی سزا ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں قرار دیئے گئے۔ 1980ء میں ضیاء الحق دور میں دفعہ 298 میں آرٹیکل اے کا اضافہ کیا گیا، جس کے تحت مقدس شخصیات منجملہ امہات المومنینؓ، اہل بیتؑ، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے بارے میں توہین کا اظہار کرنے پر سزا تین سال، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں ہی 1984ء میں اسی دفعہ298 میں مزید ترمیم کی گئی اور شق نمبر 298بی شامل تعزیرات کی گئی۔ اس شق کے مطابق اسلام کی سر برآوردہ شخصیات کے لیے استعمال ہونے والے القابات، خصوصیات یا وصف کو احمدی استعمال نہیں کرسکتے۔ اس جرم کی سزا تین سال قید یا جرمانہ ہے۔

اسی برس احمدیوں کے حوالے سے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی دوسری شق 298 سی یہ تھی کہ احمدی اپنے مذہب کی تبلیغ اس انداز سے نہیں کرسکتے کہ جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، نیز یہ کہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کرسکتے۔ اس جرم کی سزا بھی تین برس قید اور جرمانہ قرار دیا گیا۔ 298 اے کی موجودہ ترمیم جو 2021ء میں پارلیمان میں پیش کی گئی کیا ہے: دفعہ 298 اے کے تحت درج سزا جو تین برس ہے، کو بڑھا کر کم سے کم دس برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز پیش کی گئی کہ ایکٹ نمبر پانچ بابت 1898ء، جدول دوم میں درج ذیل ترامیم کی جائیں: قابل ضمانت کو ناقابل ضمانت کیا جائے، سمن کو وارنٹ کیا جائے، تین برس سزا کو عمر قید کیا جائے، درجہ اول یا درجہ دوم مجسٹریٹ کو سیشن عدالت سے بدلا جائے۔

ملک میں قانون سازی یا ترمیم کا کیا طریقہ کار ہے؟
ملک کی پارلیمان قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدر پر مشتمل ہے۔ بل کی دو قسمیں ہیں: پرائیویٹ ممبرز بل اور گورنمنٹ بل۔ ایک عام بل پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں پیش کیا جا سکتا ہے اور اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جا سکتا ہے، جو بحث کے بعد تبدیلیاں تجویز کرسکتی ہے، اسے منظور یا نامنظور کرسکتی ہے۔ اس کے بعد پہلی ریڈنگ ہوتی ہے، جس میں بل کی وجوہات اور مقاصد پر بحث ہوتی ہے، جس کے بعد دوسری ریڈنگ ہوتی ہے، جس میں بل پر شق بہ شق بحث ہوتی ہے۔ تیسری ریڈنگ میں صرف ایک ترمیم پر بحث کی جاتی ہے، اگر تجویز کیا گیا ہو۔ ایک بار جب بل کسی بھی ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت سے منظور ہو جاتا ہے، تو اسے ایوان بالا میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں اسی طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔اگر دوسرے ایوان سے منظوری مل جاتی ہے تو اسے صدر کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ آئین پاکستان میں ترمیم کرنے والے بل کو کسی بھی ایوان کی دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جانا چاہیئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کے مطابق پارلیمنٹ کے اختیارات کی حدود ہیں۔ آئین کی کچھ خصوصیات ہیں جنھیں “نمایاں” خصوصیات کہا جاتا ہے، یعنی عدلیہ کی آزادی، وفاقیت اور حکومت کی پارلیمانی شکل اسلامی دفعات کے ساتھ ملی ہوئی ہے، جسے پارلیمنٹ تبدیل نہیں کرسکتی۔ تاہم، پارلیمنٹ کو نمایاں خصوصیات کو تبدیل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر کسی بل کو دوسری صورت میں منظور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ حزب اختلاف کی طرف سے کسی بھی ایوان یا متعلقہ قائمہ کمیٹی میں اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ حکومت کے پاس ایک ایوان میں اکثریت ہو۔

صدر پاکستان کے اختیارات
اٹھارویں ترمیم کے بعد اگرچہ صدر پاکستان کے اختیارات عملاً محدود ہوچکے ہیں، تاہم صدر کو کسی بھی آرڈیننس یا ترمیم کو منظور کرنے اور جاری کرنے کا حق حاصل ہے۔ صدر کی توثیق کے بعد کوئی بھی قانون گزٹ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اگر صدر بل کو مسترد کر دے تو یہ پارلیمنٹ میں واپس آجاتا ہے اور پھر اسے دوبارہ منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس بلا کر پوری کی جاتی ہے۔ اگر بل کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو صدر اس بل پر دستخط کرنے کا پابند ہوتا ہے اور اگر بل دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس بل کی عمر ختم ہو جاتی ہے۔ 298 اے میں متنازعہ اور خفیہ ترامیم کی روداد ہم نے دو سینیٹر کی زبانی سنیں بھی اور پڑھیں بھی۔

کیا ایسا حساس بل جس میں نہ توہین و تنقیص کی وضاحت موجود ہے، جس میں ایسے موضوعات شامل ہیں، جو مسلمانوں کے مابین اختلافی ہیں۔ جن کے حوالے سے ہماری کتب حدیث، کتب تاریخ، کتب سیرت پر ہیں، پر اتنی سخت سزاؤں کا تعین، اسے ناقابل ضمانت قرار دینا درست ہے۔؟ کیا اس قانون سے ملک میں مذہبی و مسلکی ہم آہنگی کی صورتحال بہتر ہوگی یا ابتر؟ اگر توہین، تنقیص، صحابیتؓ، اہل بیتؑ کے مصادیق کو درخواست گزار کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے تو کیا اسلامی کتب منجملہ صحاح ستہ، کتب سیرت، کتب تاریخ مورد سوال نہیں آئیں گی اور کیا ان کے ناشر، مولف ان سے بیان کرنے والے مقرر، ذاکر اس بل میں درج سزاؤوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ وطن عزیز پاکستان تمام مسالک کے مسلمانوں نے مشترکہ جدوجہد سے حاصل، کیا اس ملک میں کسی ایک مسلک کے فہم کو دوسروں پر مسلط کرنا اس معاشرے کو مزید تقسیم کی جانب بڑھانے کی کوشش نہیں ہے؟

یہ بل ملک میں موجود شدت پسند عناصر کے ہاتھ میں قانونی آلہ قتل دینے کے مترادف ہے، جس کے ذریعے وہ کسی بھی شخص، سوچ، تحریر کو معدوم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ کیا ایسے قانون کی نظیر عالم اسلام یا دنیا کے کسی اور ملک میں ملتی ہے، جس میں ملزم کو گرفتاری کے وقت ہی مجرم قرار دے دیا جائے اور اس سے ضمانت کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ کیا اس قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف قانون میں کوئی سزا متعین کی گئی ہے۔؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب صدر پاکستان کو اس بل پر دستخط کرنے سے قبل ضرور حاصل کرنا چاہیئے، ورنہ وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز
یہ بھی پڑھیں: متحدہ جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس
https://albasirah.com/urdu/mjah-pegham-pak-conf/

Share this content: