تجربات، تجربات اور تجربات
تجربہ بہت اہم ہوتا ہے، کسی بھی شخص، ادارے یا گروہ کو کوئی بھی کام کرنے کا جس قدر تجربہ ہے، وہ اسی قدر کامیاب ہے، تاہم بعض اوقات تجربہ کار کے لیے اس کا تجربہ خوش فہمی بن جاتا ہے اور وہ نئے حالات کو سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہوتا ہے۔ ایسا شخص یا انسانی نظم ہر طرح کے حالات کو اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر نتائج بالکل برعکس نکلتے ہیں۔ جو بھی شخص بدلے ہوئے حالات کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اس قسم کے واقعات فقط افراد کے ساتھ نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ جو کسی بھی کام کو انجام دینے کا ذمہ دار ہے، اس غلطی کا سامنا کرسکتا ہے۔ ریاستی معاملات میں ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی ریاستیں اور ان کے ذمہ دار اپنے تجربے کے زعم میں حالات کو درست طور پر درک نہ کرنے کے سبب مشکلات کا شکار ہوئے اور بالآخر ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں شاہ ایران اور اس سے مربوط اداروں کو بھی اپنے تجربہ کار ہونے کا زعم تھا۔ انھوں نے انقلاب اسلامی ایران سے قبل کئی ایک تحریکوں، تنظیموں اور شخصیات کو کچلا تھا۔ ان کو تجربہ تھا کہ حالات کو کیسے کنڑول کرنا ہے، لہذا انھوں نے امام خمینی کی کال کو بھی ایک عمومی کال کے طور پر لیا۔ وہ نہ سمجھ سکے کہ امام خمینی کی تحریک کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔ انھوں نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس تحریک کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے دبانے کی کوشش کی، جو وہ اس سے قبل استعمال کرتے آئے تھے۔ شاہ ایران کے پاس یقیناً اس وقت کی بہترین ایجنسی ساواک تھی، اس کے پاس امریکہ کے تربیت یافتہ افسر تھے اور اسرائیلی و مغربی اداروں کی تائید اور مدد حاصل تھی۔ شاہ اور اس کی حکومت نے انقلابیوں کو دبانے کے لیے ظلم اور جبر کا ہر حربہ استعمال کیا، انقلاب کے حامیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا گیا۔ بے جا گرفتاریاں، عقوبتیں، جلا وطنیاں، انقلابی راہنماؤں کی گرفتاریاں، قیادت کی جلاوطنی، مراعات، لالچ سب کچھ آزمایا گیا، لیکن ایران کے تجربہ کار ادارے اس وقت درک نہ کرسکے کہ معاملہ ان تمام حربوں سے آگے جا چکا ہے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ 1979ء میں شاہ ایران ملک سے فرار کر گیا، ایران میں شہنشاہیت ختم ہوئی اور ایک عوامی حکومت قائم ہوئی۔
تجربہ کاری کا زعم ہم نے بہار عرب میں بھی دیکھا، جب مصر میں چالیس برس سے برسر اقتدار حسنی مبارک اپنے تمام تر ہتھکنڈوں اور طاقت کے باوجود عوامی سیلاب کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔ یمن میں علی عبد اللہ صالح کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا، لیبیا میں کرنل قذافی بھی اپنے سب انتظامات کے باوجود بالآخر گٹر سے برآمد ہوا۔ انقلاب اسی کا نام ہے، جب تجربہ کار ادارے عوامی نبض اور مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں اور پھر حالات اچانک ان کے کنڑول سے باہر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہم دہائیوں سے آزمودہ ایک تجربے کے دہرائے جانے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ حالات ویسے نہیں ہیں، جو گذشتہ چند دہائیوں میں تھے۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں آزمودہ تجربہ اس مرتبہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے، تاہم عوامی مزاج کسی اور ہی چیز کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس نازک صورتحال میں اگر عوامی مزاج اور سیاسی فضا کو نہ سمجھا گیا تو متوقع ہے کہ پاکستان میں بھی سری لنکا، مصر اور لیبیا جیسے حالات وقوع پذیر ہو جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اپریل سے ہونے والی تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جاسکی ہے۔ جہاں تک اپریل سے اب تک کے مختلف آئینی، سیاسی، انتظامی، عدالتی اور انتخابی اقدامات کا تعلق ہے تو یہ سب پاکستانی عوام کے دیکھے بھالے ہوئے ہیں اور ان پر واضح ہے کہ ان اقدامات کا آغاز کیسے اور کیونکر ہوتا ہے اور ان میں کتنی صداقت ہوتی ہے۔ پہلے کی بات اور تھی، آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، ہر بے زبان کو زبان مل چکی ہے۔ حالات کو اب پہلے کی طرز پر نہیں چلایا جا سکتا اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جس کے خلاف یہ سب اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس کی عوامی مقبولیت میں کمی ہونے کے بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں سابقہ تجربات اور تجربہ کاری نقصان کے سوا کچھ نہیں لائے گی۔ ملک کی اقتصادی اور معاشی صورتحال، ہماری نیشنل سکیورٹی اس قسم کے ایڈونچرز کی متحمل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملکہ برطانیہ کے انتقال پر پاکستان میں سوگ کا اعلان