امریکی سرپرستی میں سعودی عرب میں نصابی کتب میں تبدیلیاں
چند برسوں سے مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ سعودی عرب میں مختلف تعلیمی مراحل میں نصابی کتب کے مواد میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ تقریباً پانچ برس پہلے سابق امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے کہا تھا کہ واشنگٹن بلاواسطہ سعودی عرب کی درسی کتب میں تبدیلی پر کام کر رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے نظریات اور سعودی عرب کے بارے میں ان کے نئے وژن 2030 سے ہم آہنگ ہیں۔ اس وژن کے مطابق نئے نصاب میں دیگر ممالک کی تاریخ اور مختلف ثقافتوں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی گئی ہیں، البتہ تبدیلیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ قبل ازیں جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو امریکہ کی نظارت میں سعودی عرب کی درسی کتب میں جہاد و شہادت سے متعلق آیات اور احادیث شامل کی گئی تھیں۔ اس سلسلے میں علماء کے فتاویٰ کو بھی شامل نصاب کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ اور بعدازاں داعش اور جبھۃ النصرۃ جیسے گروہ اسی نصاب اور انہی فتووں کے نتیجے پیدا ہوئے۔
امریکہ اور سعودی عرب کے نئے نظریات کے مطابق اب اس مواد اور ان کے فتووں کی نصاب میں ضرورت نہیں رہی بلکہ اسرائیل کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر بہت سے مواد کو نکالا جا رہا ہے، خاص طور پر یہودیوں اور صہیونیوں کے خلاف مواد کو درسی کتب سے نکال دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی کانگرس نے خاص طور پر سعودی حکام سے کہا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے خلاف اور کفار سے جہاد سے متعلق آیات کو درسی کتب سے نکالے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی درسی کتب میں پہلے یہاں تک لکھا گیا تھا کہ صہیونی دولت، عورت اور منشیات کو استعمال کرکے دنیا پر تسلط قائم کرنے کے درپے ہیں۔ اب ایسا تمام تر مواد سعودی درسی کتب سے حذف کر دیا گیا ہے۔
ڈائچے ویلے کی سال رواں کے شروع کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے نصابی کتب میں سے نفرت انگیز اور یہودیوں کے خلاف زیادہ تر مواد یا تو ہٹا دیا گیا ہے یا پھر اس میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اس سعودی پالیسی کا مقصد رواداری کو فروغ دینا ہے۔ دنیا بھر میں نصابی کتب اور ان میں شائع شدہ مواد پر نظر رکھنے والے ادارے “ریسرچ انسٹی ٹیوٹ امپیکٹ سی” کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے نصابی کتب برائے سن دو ہزار بیس اور اکیس میں پایا جانے والا نفرت انگیز مواد یا تو حذف کر دیا گیا ہے یا پھر اس میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے اعتدال کی طرف لایا جا چکا ہے۔
اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی نصابی کتب میں ایک عرصے سے سامیت دشمنی پر مبنی مواد موجود تھا، جسے اب یا تو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے یا پھر الفاظ کی شدت کم کر دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سامیت دشمنی پر مبنی وہ حصہ بھی نکال دیا گیا ہے، جس کے مطابق یہودی جوڑ توڑ کرتے ہوئے دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں، تاکہ اپنے “مذموم عزائم” کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔ اسی طرح اس حصے کو بھی ہٹا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جہاد اور شہادت کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ’’اللہ کی راہ میں جہاد اسلام کا عروج ہے‘‘ کو بھی اب ختم کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح “صیہونی خطرہ‘” نامی وہ باب بھی مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، جس میں مختلف موضوعات تھے اور یہ بھی شامل تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور اسے باقی رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس باب میں یہ بھی شامل تھا کہ اسرائیل مبینہ طور پر اپنا علاقہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک پھیلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ایک اور پیراگراف جو اب حذف کر دیا گیا ہے، وہ ہم جنس پرستی سے متعلق تھا کہ ایسا کرنے والوں کی سزا موت ہے۔ نصابی کتب میں یہ تبدیلیاں 2016ء سے جاری ہیں، اب ان کتابوں کو ’’اعتدال پسندی‘‘ کا سبق پڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ اعتدال پسندی اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ انڈیا ٹوڈے کی ایک خبر کے مطابق اس وژن کے تحت طلباء کو رامائن اور مہا بھارت پڑھایا جائے گا۔ یہ مطالعہ طلبہ کے ثقافتی علم کو بڑھانے کے لیے ہوگا۔ اس میں ہندوستانی ثقافت کے اہم حصوں جیسے یوگا اور آیور وید پر توجہ دی جائے گی۔
سعودیہ میں نہ فقط نصاب میں تبدیلی کی جا رہی ہے بلکہ ایسے اساتذہ کو بھی چن چن کر تعلیمی اداروں سے فارغ کیا جا رہا ہے، جو استعمار یا صہیونیت کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔ خاص طور پر الاخوان المسلمون اور حماس سے ذہنی قربت رکھنے والے اساتذہ کو تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے بہت سوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے سابق وزیر تعلیم احمد العیسیٰ نے 2018ء میں اپنے ایک پیغام میں کہا تھا ’’وزارت تعلیم انتہاء پسندانہ نظریات سے لڑنے کے لیے نصابی کتب میں تبدیلیاں لانے پر کام کر رہی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تعلیمی نصاب پر کالعدم اخوان المسلمون کا اثر ختم کیا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں اس طرح کی تمام کتب پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور اس گروپ سے ہمدردی رکھنے والوں کو ان کے عہدوں سے بھی برطرف کر دیا جائے گا۔ تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ اخوان المسلمون سے رابطے رکھنے والے تمام مشتبہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گا۔ مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومتی ناقدین کے خلاف یونیورسٹیوں میں بھی آپریشن کیا جائے گا۔ رواں ماہ (ستمبر2018ء) کے آغاز پر سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے عناصر سعودی اسکولوں پر “حملہ آور” ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب داعش اور القاعدہ کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمین اور حماس کو بھی دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔
بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ سعودی عرب میں آنے والی تبدیلیاں اس کی خارجہ پالیسی میں بھی جھلکتی ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے بارے میں سعودی عرب کی عدم دلچسپی اس کی بدلتی ہوئی اسی پالیسی کی طرف اشارہ ہے جبکہ 1996ء میں سعودی عرب ان تین ملکوں میں سر فہرست تھا، جنھوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ سعودی حکومت کو اس سلسلے میں نہ فقط عالمی سطح پر اخوان المسلمین اور دیگر مزاحمتی قوتوں کی تنقید کا سامنا ہے بلکہ داخلی طور پر بھی بہت سے سلفی علماء اس عقب نشینی پر تنقید کر رہے ہیں۔ اسلام کے ثقافتی اور تہذیبی آثار کو مٹانے اور اسلامی تعلیمات کے امر و نہی کے تصورات کے خلاف محمد بن سلمان کی حکومت کے اقدامات کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔
البتہ ایسے علماء کو فوری طور پر زندان روانہ کر دیا جاتا ہے۔ بہت سے علماء اب تک مختلف الزامات کے تحت سزا پا چکے ہیں، بعض کو قتل کیا جا چکا ہے اور بعض جیلوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل اور اس کے ادارے اگرچہ نصاب کی بہت سی عبارتوں کی تبدیلی پر خوش ہیں، تاہم وہ مزید تبدیلیوں کے لیے بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کی اس امر کی طرف توجہ ہے کہ سعودی عرب علی الاعلان اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کرے اور اسرائیل کی حمایت میں باقاعدہ نصابی کتب میں مواد شامل کرے۔ دیکھتے ہیں کہ تبدیلیوں کا یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا ہے۔