علامہ اقبال پر کیا گزر رہی ہے؟
علامہ اقبال کو دریافت کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ہنوز ان کے سارے ابعاد شاید کسی ایک فرد پر پوری طرح آشکار نہ ہوئے ہوں۔ بڑی روحوں کی بازیافت یا دریافت کے لیے بھی بڑی روح درکار ہوتی ہے۔ ان کے گیت، ان کی نظمیں، ان کی غزلیں ہر روز پڑھی جاتی ہیں، گائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے اچھے سے اچھے گائیک اور اعلیٰ درجے کے قوال اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے رہتے ہیں۔ مولوی صاحبان شاید سب سے زیادہ علامہ اقبال سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کے جمعہ کا خطبہ شاید ہی علامہ اقبال کے شعر سے خالی ہو۔ وہی اقبال جنھوں نے ملّا کے خلاف بہت کچھ کہہ رکھا ہے۔ کوئی ملّا نہیں سمجھتا کہ اس کا اصل مخاطب وہ خود ہے۔ مذہبی جماعتیں چاہے فرقہ وارانہ ہوں یا غیر فرقہ وارانہ، شاید ہی ان میں سے کوئی علامہ اقبال سے اپنے آپ کو روگرداں قرار دے۔ دیوبندی مکتب فکر کے ایک بڑے بزرگ حسین احمد مدنی کے حوالے سے ان کا ایک بند مشہور ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس کے محتویٰ سے رجوع کر لیا تھا۔ تاہم علامہ اقبال کا کلام دیوبندی علماء بھی اپنی تقریروں میں استعمال کرتے ہیں بلکہ ناچیز ایسے دیوبندی علماء کو بھی جانتا ہے، جنھوں نے باقاعدہ علامہ اقبال کی نظموں کے مختلف پہلوئوں کے حوالے سے کتاب یا کتابچہ لکھا ہے۔ علامہ اقبال فرقہ واریت کے خلاف تھے اور اتحاد امت کے عظیم داعی تھے، لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے بہت سے مولوی صاحبان ہیں، جن کی شہرت فرقہ وارانہ ہے اور وہ مسلسل علامہ اقبال کے کلام سے استفادہ کرتے ہیں۔
بعض دانشور علامہ اقبال کو فلسفی کہتے ہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ وہ فلسفی ہرگز نہ تھے بلکہ ان کا کلام اسلامی تعلیمات کی نئی کلامی توجیہ یا تعبیر ہے۔ اس موضوع پر خاصی لے دے موجود ہے اور سلسلہ کلام جاری ہے۔ علامہ اقبال کے شعروں کی ادبی حیثیت پر بھی گفتگو کی جاتی ہے۔ بیشتر لوگ انھیں اعلیٰ درجے کا شاعر تسلیم کرتے ہیں اور اردو شاعری پر ان کے اثرات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اردو شاعری علامہ اقبال کے ذوق شعری اور طرز سخن کی گرفت میں ہے۔ بعض ناقدین کو ان کا ادبی مقام ہرگز قبول نہیں۔ ایسے بھی ہیں، جو انھیں ہرگز شاعر کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بعض نے ان کے کلام میں سے کیڑے نکالنے کی مشق بھی کی ہے۔ ایسے دانشوروں کا ذکر بھی ضروری ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اقبال جو شعر میں جلوہ گر ہے، وہ نثر میں نہیں۔ نثر کا اقبال اور شعر کا اقبال دو مختلف شخصیتیں ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سلسلے میں ان کے افکار شعری و نثری میں اختلاف یا تضاد کی مختلف مثالیں بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ بعض دانشور اس کی توجیہ بھی کرتے ہیں۔
اعلیٰ درجے کے محققین علماء، دانشوروں اور مفکرین نے اپنی زندگی کا ایک حصہ اقبال کی شاعری اور ان کی نثر کی تشریح اور تفسیر پر صرف کیا ہے۔ انگریزی میں لکھی گئی ان کی کتاب ’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ جو ان کے سات لیکچرز پر مشتمل ہے، کو ان کی نثر میں خاص مقام حاصل ہے۔ بعض مفکرین کی رائے یہ ہے کہ اقبال کا اصل علمی اور فلسفی مقام اسی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی شاعری کی تاثیر برصغیر کے علاوہ پوری دنیا میں زیادہ ہے۔ اگرچہ ان کے یہ لیکچرز بھی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر پہنچے ہیں، لیکن شاعری کے تراجم زیادہ ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری اردو کی نسبت فارسی میں زیادہ ہے۔ اسے خود فارسی زبان کے اساتذہ کے نزدیک اعلیٰ درجے کی معنیٰ خیز، فکر انگیز اور ولولہ خیز شاعری کی حیثیت حاصل ہے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے کہ ان کی انقلابی جدوجہد میں علامہ اقبال کے پیغام اور کلام کی تاثیر شامل ہے۔ ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی ہوں یا استاد مرتضیٰ مطہری، سب نے علامہ اقبال کی فکری عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ فارسی کو عالم اسلام کی دوسری بڑی زبان کہا جاتا ہے۔ اس لیے کئی ملکوں میں علامہ اقبال کا فارسی کلام بلاواسطہ سمجھا جاتا ہے۔ ایران کے علاوہ افغانستان، تاجکستان اور بعض دیگر ملکوں کے عوام زیادہ تر فارسی جانتے ہیں، اس لیے انھیں علامہ اقبال کے کلام تک بلاواسطہ رسائی حاصل ہے۔
ہمارے سکولوں اور کالجوں میں کسی زمانے میں علامہ اقبال کا کلام ہر روز کسی نے کسی صورت میں پڑھا جاتا تھا، خاص طور پر دن کا آغاز ہی ان کی اس دعا سے ہوتا تھا ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔‘‘ علامہ اقبال کا یوم ولادت اور یوم وفات تقریباً ہر سکول اور کالج میں منایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آہستہ آہستہ ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے ساتھ ایک اور المیہ ہو رہا ہے اور اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ ہماری قوم جو فارسی سے پہلے ہی محروم ہوچکی تھی، اب اردو سے بھی محروم اور نابلد ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب ہمارے بچے اردو بھی رومن ہجوں میں لکھتے ہیں، ایسے میں اقبال تک ان کی رسائی کہاں باقی رہ سکتی ہے۔ جنھیں آج بھی اقبال سے سروکار ہے، انھیں اقبال سے اپنے افکار کی تائید درکار ہوتی ہے، لہذا وہ ایسے اشعار یا اقوال تلاش کرتے ہیں، جنھیں وہ اپنی توجیہ اور تعبیر کے ساتھ پیش کر سکیں۔
دور حاضر میں تو یہ بھی ضروری نہیں کہ اقبال کا شعر ہی اقبال کے نام سے بیان کیا جائے۔ ہر روز کتنے ہی بے وزن، بے وقعت اور بے ڈھنگے اشعار اقبال کے نام پر سوشل میڈیا پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وسعت کے اعتبار سے کس کس کو روکا جائے اور کس کس کی اصلاح کی جائے۔ جو قوم السلام علیکم یا سلام علیکم کا حلیہ بگاڑ سکتی ہے اور مسلسل بگاڑے چلے جا رہی ہے، اسے علامہ اقبال کے کلام کا حلیہ بگاڑنے یا ان کے نام سے کوئی بے ڈھب چیز منسوب کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہم خود مایوس ہیں، نہ دوسروں کو مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے اہل نظر موجود ہیں جو اقبال کے پیغام کی وسعت اور گہرائی پر نظر رکھتے ہیں اور اقبال کو عصر حاضر کا ہی نہیں بلکہ آئندہ دور کا بھی شاعر اور مفکر تسلیم کرتے ہیں۔ اقبال کے حوالے سے قائم اداروں پر اعتراضات اپنی جگہ پر درست ہو سکتے ہیں، لیکن سب کچھ سرکاری اداروں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ حالات کی سنگینی اور موضوع کی سنجیدگی کو جاننے والے احباب کو چاہیے کہ ایک مرتبہ پھر اقبال کے حوالے سے فکری اور علمی روش کو اختیار کرتے ہوئے کمر ہمت باندھیں اور کسی اجتماعی جدوجہد کا آغاز کریں۔ ہمارے نزدیک ایسا ممکن ہے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز
Share this content: