قرآن اور رشد
ڈاکٹر علی عباس نقوی
تعارف
“رشد” کو تاریکی سے نکل کر نور میں داخل ہونے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اللہ کی سرپرستی اور اس کی ولایت کو قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔رشد کی اس تعریف کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان خدا پر بھروسا کرے اور اسے اپنی ضرورتوں کا پورا کرنے والا سمجھے تو وہ اس کی سرپرستی کو قبول کرلیتا ہے ا اور پوری رغبت کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرتا ہے۔اس صورت میں وہ رفتہ رفتہ ہر قسم کی تاریکی سے نکل جاتا ہے اور روز بروز زیادہ نورانی ہوتا جاتا ہے۔تاریکی سے نکل کر نور میں داخل ہونا یعنی جہالت سے نکل کر علم میں داخل ہونا،نا توانی سے نکل کر توانائی میں داخل ہونا، افسردگی سے نکل کر فرحت و مسرت میں داخل ہونا، بدحالی سے نکل کر خوشحالی میں داخل ہونا،گناہ اور آلودگی سے نکل کر طہارت اور پاکیزگی میں داخل ہونا۔اس طرح انسانی وجود میں پائی جانے والی تمام تر باطنی قوتیں دین خدا کے دائرے میں رہ کر روز بروز نکھرتی جاتی ہیں اور انسان کے سارے بالقوہ فضائل رفتہ رفتہ فعلیت کی منزل میں آجاتے ہیں اورانسان خداوند عالم سے جو کمال مطلق ہے نزدیک سے نزدیک تر ہوجاتا ہے۔یہی رشد کی حقیقت ہے۔
قرآن خدا کی کتاب ہے۔یہ انسانوں کے ارتقا اور ہدایت کی کتاب ہے۔کوئی بھی چیز انسانی ضرورتوں کو اس طرح پورا نہیں کر سکتی جس طرح قرآن کرتا ہے۔[1]کیونکہ انسانی ضرورتیں دو طرح کی ہیں:ایک معنوی ضرورتیں جنھیں قرآن براہ راست پورا کرتا ہے دوسری مادی ضرورتیں جنھیں پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی وجود میں کچھ صلاحتیں رکھی ہیں۔ان صلاحیتوں کے پھلنے پھولنے اور ان سے استفادہ کرنے سے انسان اپنی مادی ضرورتوں کو بخوبی پورا کر سکتا ہے۔صرف قرآن ہی ہے جو انسان کی تمام تر باطنی قوتوں کو بغیر کسی نقصان کے اورہم آہنگی کے ساتھ فروغ دے سکتا ہے اور انسان کوپروان چڑھا سکتا ہے۔[2]
قرآن خدا کی کتاب ہے۔یہ انسانوں کےارتقا اور ہدایت کی کتاب ہے۔انسان اس دنیا میں ترقی کرنے اور کمال تک پہنچنے کے لیے آیا ہے۔جنت رشد یافتہ انسانوں کی جگہ ہے۔قرآن ہی ہے جو انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے کمال کے راستے پر ڈالتا ہے اور رشد تک پہنچاتا ہے۔امام کاظم ؑ فر ماتے ہیں:
“جنت کے درجے قرآن مجید کی آیتوں کی تعداد کے برابر ہیں اور انسان سے کہا جاتا ہے کہ پڑھو اور اوپر اٹھتے جاؤ۔”آپ ،رشد اور ترقی کو قرآن مجید کی تلاوت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔[3] اس لیے قرآن پڑھنے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ نشو ونما حاصل کی جائے اور باطنی قوتوں کو فروغ دیا جائے۔
البتہ تلاوت قرآن کی مختلف سطحیں ہیں اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نشو ونما کی سطح کے مطابق قرآن کی تلاوت کرے۔قرآن مجید کے پڑھنے سے انسانی نشو ونما کی سطح بہتر ہوتی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ اس کی قرآن پڑھنے کی سطح میں بھی بہتری آتی ہے۔دھیرے دھیرے ترقی کا یہ دائرہ اس کے فہم اور عمل کا بھی احاطہ کر لیتا ہے۔اس لیے اگر قرآن خوانی کا ایک مناسب پروگرام ترتیب دینا ہے تو اس کے لیے دو چیزو ں کا جائزہ لینا ضروی ہے:
۔“رشد” کی تعریف کیا ہے اور کسی بھی سطح پر انسانوں کے رشد کا نتیجہ کیا ہونا چاہیے؟
۔انسان مختلف سطحوں پر کس قسم کے تقاضے اور صلاحیتیں رکھتا ہے اور ان کے لیے قرآن خوانی کی کون سی سطح مناسب ہے؟
“رشد” کی تعریف کیا ہے اور اس کے درجات کیا ہیں؟
“رشد” کو تاریکی سے نکل کر نور میں داخل ہونے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اللہ کی سرپرستی اور اس کی ولایت کو قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔[4]رشد کی اس تعریف کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان خدا پر بھروسا کرے اور اسے اپنی ضرورتوں کا پورا کرنے والا سمجھے تو وہ اس کی سرپرستی کو قبول کرلیتا ہے ا اور پوری رغبت کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرتا ہے۔اس صورت میں وہ رفتہ رفتہ ہر قسم کی تاریکی سے نکل جاتا ہے اور روز بروز زیادہ نورانی ہوتا جاتا ہے۔تاریکی سے نکل کر نور میں داخل ہونا یعنی جہالت سے نکل کر علم میں داخل ہونا،نا توانی سے نکل کر توانائی میں داخل ہونا، افسردگی سے نکل کر فرحت و مسرت میں داخل ہونا، بدحالی سے نکل کر خوشحالی میں داخل ہونا،گناہ اور آلودگی سے نکل کر طہارت اور پاکیزگی میں داخل ہونا۔اس طرح انسانی وجود میں پائی جانے والی تمام تر باطنی قوتیں دین خدا کے دائرے میں رہ کر روز بروز نکھرتی جاتی ہیں اور انسان کے سارے بالقوہ فضائل رفتہ رفتہ فعلیت کی منزل میں آجاتے ہیں اورانسان خداوند عالم سے جو کمال مطلق ہے نزدیک سے نزدیک تر ہوجاتا ہے۔یہی رشد کی حقیقت ہے۔[5]
رشد کے مختلف درجے ہیں اور انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ان درجات کو حاصل کرے۔“نظام رشد قرآنی” کے مطابق:
رشد کے پہلے درجے کا نام “طیب” ہے۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے پہلے دور میں رشد کے اس درجے پر پہنچ جائے تو پاک و پاکیزہ رزق سے مستفید ہو کر اس کے اندر اپنے،دوسروں اور ارد گرد کے ماحول کے متعلق مثبت سوچ پیدا ہوگی اور وہ اپنے جذبات اور قوۂ تکلم پر قابو پاکر دوسروں سے بخوبی ارتباط قائم کر سکتا ہے۔
دوسرے درجے کا نام “خیر”ہے۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے دوسرے دور میں رشد کے اس درجے پر پہنچ جائے تو وہ الٰہی معیارات کی بنیاد پر اور ماہرین سے مشورہ کرکے اپنے حقیقی مفادات کو پہچان سکتا ہےا ور ہر موقع پر زیادہ سے زیادہ نفع کا انتخاب کر سکتا ہے اور اسے حاصل کر سکتا ہے۔اس طرح اس کے اندر تفکر کی صلاحیت کو فروغ ملے گا اور وہ دوسروں کو مشورہ دینے کا اہل ہو جائے گا۔
تیسرے درجے کا نام“حسن” ہے۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے تیسرے دور میں رشد کے اس درجے پر پہنچ جائے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت پروان چڑھتی ہے اور وہ مختلف کاموں کو بہترین شکل میں انجام دیتا ہے۔ایک طرف تو وہ ہر کام کو عقل و شعور کے ساتھ اور حکم الٰہی کے مطابق انجام دیتا ہے دوسری طرف دوسروں کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔
چوتھے درجے کانام “ایمان” ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کے چوتھے مرحلے میں رشد کے اس درجے پر پہنچ جائے تو وہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی سلامتی کا باعث بنتا ہے۔وہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور دوسروں کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنے کا اہل ہوجاتا ہے۔
پانچواں درجہ “صدق” کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے پانچویں دور میں رشد کے اس درجے پر پہنچ جائے تو اس کی گفتگو اور طرز عمل حق و حقیقت سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کو عقلمندی کے ساتھ معاشرہ میں رشداور ترقی کی نئی لہریں پیدا کرنے میں صرف کرتا ہے۔
چھٹا درجہ “ولایت” کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے چھٹے دور میں رشد کے اس درجے پر پہنچ جائے تو وہ سب سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور فقط خدا کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے والا سمجھتا ہے۔اس طرح وہ ولایت الٰہی کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے لگتا ہے ۔وہ خدا کا بندہ بن کر معاشرہ کو خدا وند عالم کی جانب لے جانے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔
ہر مرحلے میں قرآن کس طرح پڑھاجائے؟
قرآن خوانی کی پہلی سطح قرآن کے الفاظ کا اس طرح سننا ہے کہ آیتوں اور سورتوں سے انسیت کا سبب بنے۔قرآن مجید سے ارتباط کی یہ سطح اس وقت سے قابل عمل ہوتی ہے جب بچہ رحم مادر میں حمل کے مراحل طے کرتا ہے۔رشد کے پہلے مرحلے میں جو کم و بیش اسکول میں داخلے سے پہلے کازمانہ ہوتا ہے، بچے کے لیے قرآن خوانی کی فقط یہی سطح مفید ہے ۔بچہ خوشگوار اور پر نشاط ماحول میں اپنے ماں باپ سے قرآن مجید کی آیتیں سنتا ہے ۔اسے آیتیں اچھی لگنے لگتی ہیں اور وہ ان سے مانوس ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ وہ آہستہ آہستہ آیات کو حفظ کر لیتا ہے اور خود سے انھیں پڑھنے لگتا ہے۔تعلق کے اس درجے کو ہم“ قرآن سے انسیت” کا نام دیتے ہیں جو بعد کے تمام مراحل میں قرآن مجید کے ساتھ تعلق کی بنیاد بھی ہے۔بچے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے، آیات اور سورتوں کے سنگین مفاہیم کا بیان، قرآن کے ساتھ بچے کے رابطے میں خلل کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح بچے کو قرآن حفظ کرنے اور سننے پر مجبور کرنا اس کے اندر بیزاری پیدا کر سکتا ہے اور یہ بیزاری قرآن مجید کے پڑھنے اور اس کی بنیاد پر رشد حاصل کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
دوسرے مرحلے یعنی پرائمری اسکول کی مدت میں ارتباط کی سطح کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ گواس سطح پر بھی سورتوں کا پڑھنا اور سننا ہی رشد حاصل کرنے کا محور ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اس سطح پر ہر سورۃ سے ایک پیغام کا بچے کی جانب منتقل ہونا بھی ضروری ہے۔البتہ محض کسی نکتہ کے سن لینے سے پیغام منتقل نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ بچہ خود اس پیغام کا تجربہ کرے اور اس کی بنیاد پر اپنےاندر تبدیلی پیدا کرے۔اس تبدیلی کی نشانی اس یقین کی بنیاد پر غیر تقلیدی کاموں کو انجام دینا ہے جو اسے سورۃ کے پیغام سے حاصل ہوا ہے۔قرآن مجید سے ارتباط کی اس سطح کو ہم “فہم قرآن” سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہائی اسکول اور نوجوانی کے دور کو رشد کا تیسرا مرحلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اس مرحلے میں اپنی ضروریات کے متعلق فرد کے علم و ادراک میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ فقط انھیں چیزوں کی طرف توجہ دیتا ہے جن کی وہ ضرورت محسوس کرتا ہے خواہ غلط ہو یا صحیح۔قر أت کی سطح اس مرحلے میں بلند ہوجاتی ہے۔اس ترتیب سے کہ ابتدا میں قرآن مجید کے متعلق نوجوان کی ضرورت کو متحرک ہونا چاہیے اس کےبعد وہ استاد کی مدد سے ایک سورۃ کا مطالعہ کرے۔کلمات کے معانی،آیات کے ترجمے اور ان کے مفاہیم کے باہمی ارتباط پر توجہ دے تاکہ اپنا جواب دریافت کر سکے اور اس کی بنیاد پر صالح عمل انجام دے۔اس طرح سورۃ کی برکت سےاس کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور قرآن اور اس کی آیات شریفہ نوجوان کے اندر تفکر کو بالیدگی عطا کریں گے ۔قر أت قرآن کی اس سطح کو ہم “قرآن کے ذریعہ تفکر” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
رشد کے چوتھے مرحلے میں انسان کے وجود میں علم و عمل کے تمام عناصر کی نشوونما ہوتی ہے تاکہ وہ رشد اور سعادت کے حصول کے لیے قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کو اپنی بنیادی ضرورت سمجھے۔اس مرحلے میں قرأت کی سطح“ قرآن مجید میں تدبر” ہے۔قرآن مجید میں تدبر کا مطلب آیات قرآنی سے زندگی کے لیے سبق لینا اور ان سے مستفید ہونا ہے؛ یعنی قرآن پڑھنا سمجھنےا ور عمل کرنےکے لیے؛یعنی قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر زندگی کے لیے منصوبہ بندی کرنا جس میں معاملات کے انجام اور کاموں کے نتائج کو مد نظر رکھا جائے۔بعد والے مراحل میں انسان قرآن مجید میں تدبر کی اونچی سطحوں تک پہنچ سکتا ہے جو سماجی پہلو کی حامل ہیں۔
یہ تمام مراحل بنیادی طور پر تدبر قرآن کریم کے مراحل ہیں ، جو قرآن کریم کو سمجھنے اس پر تدبر کرنے کی ایک قرآنی تحریک کا حصہ ہیں ۔ اس کے عنوان سے ادارۃ التنزیل اور البصیرہ ایک عرصے سے مصروف عمل ہیں ۔
[1] ۔الکافی ج2،ص605:قال ابو عبد اللہ علیہ السلام من قرا القرآن فھو غنی ولا فقربعدہ و الا ما بہ غنی(امام صادق ؑ نے فرمایا:جو شخص قرآن پڑھے وہ بے نیاز ہے اور اس کے بعد کوئی فقر نہیں ہے،اس کے بغیر کوئی بے نیازی حاصل نہیں ہو سکتی)
[2] ۔مزید تفصیل کے لیے “آموزش روشھای تدبر در قرآن” نامی سلسلے کی دوسرے جلد جس کا عنوان "مقدمات تدبر در قرآن” ہے،کے سورۂ حمد والے حصے کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
[3] ۔ الکافی ج2،ص605:من مات من اولیائنا و شیعتنا و لم یحسن القرآن علم فی قبرہ لیرفع اللہ بہ من درجتہ فان درجات الجنۃ علیٰ قدر آیات القرآن یقال لہ اقرا و ارق فیقرا ثم یرقیٰ
[4] ۔اس بات کا سورۂ بقرہ کی 256 اور 257 ویں آیت کا مطالعہ کرکے جائزہ لیاجا سکتا ہے۔
[5] ۔احمد رضا اخوت کی کتاب“معنی شناسی رشد” کی جانب رجوع کیجئے جو انتشارات قرآن و اہلبیت نبوت نے شائع کی ہے۔
Share this content: