واشنگٹن میں خوف کے سائے
20 جنوری 2021ء جوں جوں قریب آرہی ہے، امریکہ بھر میں بالعموم اور واشنگٹن ڈی سی میں بالخصوص خوف کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بھوتوں نے ڈیرہ ڈال لیا ہو۔ پینٹا گون نے نیشنل گارڈز کو نومنتخب صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری والے دن یعنی 20 جنوری کو واشنگٹن میں پچیس ہزار سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔ حلف برداری کی تقریب والے دن واشنگٹن میں مکمل تعطیل کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی، ورجینیا اور میری لینڈ ریاستوں کے حکام نے امریکی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حلف برداری کی تقریب والے دن اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ یہ سب کچھ 6 جنوری کو صدر ٹرمپ کے ابھارنے پر ان کے حامیوں کی طرف سے امریکی کانگرس کی عمارت پر حملے کو سامنے رکھ کر کیا جا رہا ہے، جب حملہ آوروں نے کانگرس کی عمارت کو کچھ عرصے کے لیے اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اس دوران میں پانچ افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔
امریکہ سے آنے والی رپورٹوں کے مطابق تقریب حلف برداری سے قبل امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں کے علاوہ وفاقی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران ممکنہ مسلح مظاہروں کا الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے متنبہ کیا ہے کہ تمام ریاستوں میں صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے مسلح احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں۔ تقریب کے روز واشنگٹن ڈی سی کا اکثر حصہ لاک ڈائون میں ہوگا اور ہر طرف نیشنل گارڈز کے دستے متعین ہوں گے۔ کیپیٹل ہل جہاں کانگرس کی عمارت موجود ہے، اس سے کئی میل دور تک سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور ابھی سے وہاں کنکریٹ اور دھات کی رکاوٹیں نصب کی جا چکی ہے۔
انٹرنیٹ پر ٹرمپ کے حامیوں اور انتہائی دائیں بازو کے گروہوں نے اس روز اپنی آن لائن کمیونٹی میں مسلح مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستیں مسلح یا پرتشدد مظاہروں نے نمٹنے کے لیے اور کسی ناخوشگوار واقعے کو ٹالنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ تمام ریاستوں نے مظاہروں کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک بھر میں ریاستی عمارتوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ میری لینڈ، نیو میکسیکو اور یوٹاہ کے گورنروں نے ممکنہ مظاہروں سے قبل ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ کیلیفورنیا، پینسلوینیا، مشیگن، ورجینیا، واشنگٹن اور وسکانسن میں نیشنل گارڈ کے فوجی دستے متحرک ہوچکے ہیں۔ ٹیکساس میں ریاستی عمارتوں کو ہفتے سے بدھ تک بند رکھا جائے گا۔ مشیگن میں ریاستی عمارتوں کے گرد چھ فٹ کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ایوان نمائندگان نے قرارداد منظور کرلی ہے اور اب سینٹ میں ان کا ٹرائل کیا جانا ہے۔ اگرچہ ایسا جوبائیڈن کے تقریب حلف برداری کے بعد ہی ممکن ہے، تاہم صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے مظاہرین کو بغاوت پر اکسایا ہے۔ صدر ٹرمپ کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ چونکہ قبل ازیں انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ فراڈ زدہ الیکشن کے خلاف شدید مزاحمت کریں۔ ان کے اس خطاب کے بعد ہی کانگرس کی عمارت پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے مواخذے کے لیے جو آرٹیکل کثرت رائے سے ایوان نمائندگان میں منظور ہوا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے متعدد مرتبہ جھوٹے بیانات کا سہارا لیا اور کہا کہ صدارتی انتخاب کے نتائج فراڈ زدہ ہیں اور انھیں نہیں ماننا چاہیے۔ انھوں نے جان بوجھ کر ایسے بیانات دیے، جن سے مجمع کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس کے نتیجے میں کیپیٹل ہل میں ایک غیر قانونی کارروائی عمل میں آئی۔
آرٹیکل میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ اور حکومت کے مرکزی ادارے کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیا۔ جمہوری نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور اقتدار کی پرامن منتقلی میں مداخلت کی۔ توقع یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کو 2024ء میں صدارتی امیدوار بننے سے روکنے کے لیے سینٹ میں ان کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے گی۔ دریں اثناء امریکی ایف بی آئی اس اطلاع کے بارے میں تحقیق کر رہی ہے کہ 6 جنوری کو کانگرس کی عمارت پر حملے کے لیے مظاہرین کو متحرک اور منظم کرنے کے لیے بیرون ملک سے مالی امداد فراہم کی گئی ہے۔ این بی سی نیوز نے ایف بی آئی کے موجودہ اور بعض سابقہ ذمہ داروں کے حوالے سے یہ خبر دی ہے، جس کے مطابق فرانس کے ایک شہری کے توسط سے پانچ لاکھ ڈالر اس منصوبے کے لیے فراہم کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ پہلے بھی روس اور چین پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ انھوں نے امریکہ کے انتہا پسندوں کو مالی امداد فراہم کی ہے، یہاں تک الزام عائد کیا جاچکا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اقتدار میں لانے کے لیے انھیں روس کا تعاون حاصل رہا ہے۔
امریکہ سے آنے والی ایسی خبروں پر پوری دنیا میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بعض ممالک نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ امریکی کانگرس پر حملے کی مذمت کرچکے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے حامی چونکہ سفید فام شدت پسند اور انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں جو اس وقت بڑے جوش و خروش میں ہیں، اس لیے امریکی سکیورٹی کے ادارے بار بار تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور امریکہ میں ایسے موقع پر جبکہ نئے صدر کی تقریب حلف برداری قریب آچکی ہے، تمام ریاستوں میں الرٹ کے جاری کیے جانے کو ایک انہونی قرار دیا جا رہا ہے۔
موجودہ اقدامات سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اقتدار کی منتقلی بظاہر پرامن طریقے سے ہو جائے گی، لیکن کیا امریکہ اس ہیجانی اور جذباتی کیفیت سے آسانی سے باہر نکل سکے گا۔ کیا 20 جنوری کے بعد اچانک یہ جذبات خاموش ہو جائیں گے یا امریکی معاشرے کی شکست و ریخت میں اپنا کردار ادا کرتے رہیںگے۔ خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنی ناکامی یا رسوائی پر خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے یا متبادل راستے اختیار کریں گے۔ ان کا مزاج اور گذشتہ چار سالوں میں سامنے آنے والا ان کا کردار تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کر سکیں گے۔
صدر ٹرمپ کو عالمی سطح پر اپنے اقدامات کی وجہ سے بھی ردعمل کی توقع ہے، جس کا اظہار وہ واضح طور پر تو نہیں کرتے لیکن ان کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے لاشعور میں یہ بات موجود ہے۔ 6 جنوری 2021ء کو ان کے ابھارنے پر امریکی کانگرس پر جو حملہ ہوا، اس سے پورا ایک سال پہلے ان کے حکم پر عالمی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ یہ واقعہ بغداد کے ایرپورٹ پر ہوا۔ جب دنیا میں ایسے واقعات ہو رہے تھے، اس وقت اگر امریکی نظام صدر ٹرمپ کے بارے میں مثبت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا تو یقینی طور پر 6 جنوری کا واشنگٹن ڈی سی میں رونما ہونے والا واقعہ پیش نہ آتا۔
ایک سوال اور بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ کیا آئندہ امریکی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کی پیدا کردہ جذباتی فضا سے باہر نکل سکے گی؟ ہماری رائے میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عوام کے وسیع طبقوں میں مقبولیت ہے۔ آئندہ حکومت ان کے پاپولر ووٹ کو پوری طرح نظرانداز کرکے فیصلے نہیں کر پائے گی۔ یہ مشکل انھیں داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات میں بھی پیش آئے گی اور عالمی سطح پر بھی۔ اس جذباتی فضا نے نکلنے کے لیے بڑی جرأت مندی اور حکمت و تدبر کی ضرورت ہے۔ منتخب حکومتیں عام طور پر عوام کی رائے کے زیر اثر رہتی ہیں۔ ایسے موقع پر مدبر قیادت عوام کو نئے سرے سے نئی حکمت عملی کے لیے قائل تو کرسکتی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کی نئی قیادت اس کا مظاہرہ کر پائے گی یا نہیں۔ اس کے کمزور اور چند ظاہری اقدامات امریکہ کو بچانے کے لیے ناکافی ہوں گے۔ دیگر اقوام پر لگائے گئے زخموں کو بھی مندمل کرنا ضروری ہوگا۔
آج امریکہ کی تمام ریاستوں میں ایمرجنسی کی صورتحال یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہونی چاہیے کہ امریکہ کو اب داخلی سدھار کی زیادہ ضرورت ہے اور سرحد پار آویزشیں پیدا کرنے اور جلتی پر تیل ڈالنے اور غیروں کی گائے بھینسوں کا دودھ دوہنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔ امریکہ کےاندر عوام کے پاس جس قدر اسلحہ موجود ہے، وہ بھی امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ سابق صدر اوباما اپنے اعلانات کے باوجود اس اسلحے پر قدغن عائد نہیں کرسکے اور اس کی وجہ اسلحہ ساز طاقتور مافیا ہے، جبکہ صدر ٹرمپ نے تو اس روش کو آگے ہی بڑھایا ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے توصدر ٹرمپ کے حامیوں ہی کے پاس اسلحہ زیادہ ہے۔ اگر وہ منظم ہو کر باہر نکل آئے تو امریکہ کے لیے وہ دن بہت خوفناک ہوگا۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: