امام حسین علیہ السلام کی انفرادیت
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی بعض خصوصیات بعض دیگر ہستیوں کے ساتھ مشترک ہیں، لیکن امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کی انفرادیت کے ایسے بہت سے پہلو ہیں، جو انھیں تمام عظیم ہستیوں سے منفرد اور ممتاز کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام پنجتن پاک میں سے ایک ہیں۔ جن افراد کی محبت اللہ تعالیٰ نے امت رسولؐ پر فرض کی ہے، ان میں سے ایک امام حسینؑ بھی ہیں۔ چادر تطہیر کے زیر سایہ جب آیہ تطہیر نازل ہوئی تو امام حسینؑ بھی اُن میں شامل تھے، جو اس آیہ میں اہل بیتؑ کا مصداق قرار پائے۔ واقعہ مباہلہ میں رسول اللہؐ سمیت جب پانچ ہستیاں حکم الٰہی سے نصاریٰ نجران سے مباہلے کے لیے باہر آئیں تو امام حسینؑ کو رسول اللہؐ نے گود میں اٹھا رکھا تھا اور آپ ابناءنا کا ایک مصداق تھے۔ آپ کو امام حسنؑ کے ساتھ جوانانِ جنت کا سردار قرار دیا گیا۔ اتنی عظمتوں اور بلندیوں میں اشتراک کے باوصف امام حسینؑ کے حوالے سے بعض انفرادیتیں قابل ذکر ہیں۔ آئیے ان میں چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔
امام حسینؑ کی ولادت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں گود میں اُٹھایا تو آپؐ گریہ کرنے لگے۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپؐ نے بتایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے شقی قتل کر دیں گے۔ جبرئیل نے آپ کو امام حسینؑ کی قتل گاہ کی مٹی لا کر دی، جو آپؐ نے ایک شیشی میں حضرت ام المومنین ام سلمہؑ کے سپرد کر دی اور فرمایا کہ جب میرا حسین شہید ہو جائے گا تو یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے گی۔ امام حسینؑ کی شہادت کی خبریں مسلسل مختلف انداز سے دی جاتی رہیں، یہاں تک امیرالمومنینؑ امام علیؑ صفین میں جاتے ہوئے سرزمین کربلا سے گزرے تو فرمایا کہ یہ عشاق کی قتل گاہ ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ ان کے خیموں کی جگہ یہ ہوگی، ان کے جانور باندھنے کی جگہ یہ ہوگی اور ان کے سامان کی جگہ یہ ہوگی۔ اس طرح کی تفصیلات کسی اور شخصیت کے بارے میں پہلے سے بیان نہیں کی گئیں۔
واقعۂ کربلا بذات خود ایک بہت مختلف واقعہ ہے، تاہم دنیا میں بہت سے حیران کن، المناک اور پرتاثیر واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن واقعۂ کربلا کی جس قدر تفصیلات تاریخ، احادیث اور روایات میں بیان کی گئی ہیں، وہ حیران کن ہیں۔ امام حسینؑ کے مدینہ سے نکلنے، مکہ مکرمہ میں پہنچنے، مکہ سے آٹھ ذوالحجہ ساٹھ ہجری و کوفہ کی طرف روانگی اور مکہ و کوفہ کے درمیان کے واقعات اور مختلف مقامات پر پڑائو کی تفصیلات، راستے میں چھوڑ جانے والوں اور مختلف ملنے والے افراد کی تفصیلات، مختلف مقامات پر امام حسینؑ کے خطبات اور پھر کوفہ کے نزدیک حُر ریاحی کے لشکر کی آمد اور حاکم کوفہ کی طرف سے امام حسینؑ کو کوفہ کی طرف آگے بڑھنے سے ممانعت اور امام حسینؑ کا کربلا کی طرف رُخ کرنا اور وہاں پر اپنے قافلے کو پڑائو ڈالنے کا حکم ان تمام واقعات کی جزئیات تاریخ اور روایات میں موجود ہے۔ اسی طرح دو محرم سے لے کر شام غریباں تک کے واقعات، اسراء کے قافلے کی کوفہ اور پھر شام کی طرف روانگی، نیز شام میں پیش آنے والے واقعات ان سب کی تفصیلات تاریخ نے محفوظ کی ہیں۔
امام حسینؑ کی شہادت اور واقعۂ کربلا کو جس قدر یاد کیا گیا ہے اور یاد کیا جاتا ہے، اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب شہید اعظم میں لکھتے ہیں: ’’بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی الم ناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے، جس قدر اس حادثہ پر بہ چکے ہیں۔ تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا۔ امام حسینؓ کے خونچکاں حادثہ سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے۔‘‘ امام حسینؑ کے حوالے سے مقاتل کے عنوان سے بہت سی کتابیں معرض تحریر میں لائی گئی ہیں، جن میں واقعات کربلا اور شہادت امام حسینؑ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ کسی اور مقتل یا جنگ کے بارے میں اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں، جتنی امام حسینؑ کے مقتل پر لکھی گئی ہیں۔
بہت سے علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر اسلامی حکومت میں بڑا بگاڑ پیدا ہو جائے اور حکمران انحراف کا راستہ اختیار کرلیں تو ہمارے پاس ان کے خلاف اٹھنے کے لیے امام حسینؑ کا قیام ایک نمونے اور مستند دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جا رہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے، حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے مگر چلائی جا رہی ہے غیر اسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے، اگر حضرت حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت راہنمائی کی نہ تھی۔‘‘
مسلمانوں میں امام حسینؑ کی یاد منانے کا سلسلہ اس قدر وسعت اختیار کر گیا کہ دنیا بھر میں ایسی عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں کہ جو ذکر حسینؑ اور واقعۂ کربلا کے بیان کے لیے مختص کی جانے لگیں اور یہ سلسلہ تیز رفتاری سے آج بھی جاری ہے۔ یہ عمارتیں ایک ایک کمرے سے لے کر عظیم الشان محلات کی طرح تعمیر کی جاتی ہیں۔ دنیائے عرب اور ایران میں ان عمارتوں کو ’’حسینیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور ہمارے ہاں ’’امام بارگاہ‘‘ اور امام سے مراد امام حسینؑ ہی ہیں۔ شاید ایسی عمارتیں دنیا کے ایک سو سے زیادہ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے لاکھوں افراد ہیں کہ جو اپنے گھر کا ایک کمرہ حسینیہ کے طور پر وقف کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال دنیا میں کسی اور فرد اور کسی اور واقعے کے حوالے سے نہیں مل سکتی۔ کسی فرد کی یاد میں ایک یا ایک سے زیادہ عمارتیں ہوسکتی ہیں، لیکن اتنی کثیر بلکہ ان گنت تعداد میں پوری دنیا میں کسی ایک ہستی کے لیے اتنی عمارتوں کا مختص ہونا حیران کن ہے۔
واقعۂ کربلا نے شاعروں اور ادیبوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ دنیائے شعر و ادب میں بعض اصنافِ سخن امام حسینؑ کے لیے مختص ہو کر رہ گئی ہیں۔ اگرچہ اصولی طور پر یہ اصناف صرف امام حسینؑ کے لیے معرض وجود میں نہ آئی تھیں، لیکن آج اگر وضاحت نہ کی جائے تو سلام اور مرثیہ کے الفاظ سے پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ یہ امام حسینؑ اور واقعہ کربلا سے متعلق ہے۔ پوری دنیا میں امام حسینؑ کی یاد میں شعری نشستیں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی نشستوں کے لیے ’’مسالمہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس سے ہر شاعر یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ امام حسینؑ کی یاد میں شعری نشست کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ رثائی ادب کے نام سے اردو ادب کی ایک شاخ معرض وجود میں آچکی ہے، تہذیب کربلا کے عنوان سے خطابت اور ادبی کتابوں کا ایک الگ سلسلہ قائم ہے۔ امام حسینؑ کے لیے مختص مجالس، جلوس ہائے عزا، ماتم، پانی کی سبیلیں، محرم الحرام میں ہر طرف دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سب واقعۂ کربلا سے جڑی ہوئی عشق و محبت کی یادیں ہیں۔
امام حسینؑ نے دلوں میں ایسے چراغ روشن کیے ہیں کہ جن کا نور حق و باطل میں تمیز کا ذریعہ بنتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی: “اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ حَرَارَۃٌ فِی قُلُوبِ الْمُوْمِنِینَ لَنْ تَبْرُدَ أبَداً”، “یقیناً قتل حسین سے مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگی، جو ہرگز ٹھنڈی نہ ہو سکے گی۔” ویسے تو ہمارے ہاں مرحومین کا چہلم منانے کی ایک رسم موجود ہے، لیکن بڑی شخصیات جن میں انبیاء، اولیاء اور دیگر بزرگان دین شامل ہیں، کا ہر سال چہلم منانے کا کوئی سلسلہ دنیا میں موجود نہیں۔ ہاں امام حسینؑ کا چہلم صدیوں سے منایا جا رہا ہے۔ عصر حاضر میں اس دن کی یاد نے ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، جس نے دنیا کو انگشت بدنداں کر رکھا ہے۔ قصہ ناتمام ہے، اس موضوع پر لکھنے کے لیے ابھی مزید کئی نشستیں درکار ہیں۔
امام حسینؑ کی ولادت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں گود میں اُٹھایا تو آپؐ گریہ کرنے لگے۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپؐ نے بتایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے شقی قتل کر دیں گے۔ جبرئیل نے آپ کو امام حسینؑ کی قتل گاہ کی مٹی لا کر دی، جو آپؐ نے ایک شیشی میں حضرت ام المومنین ام سلمہؑ کے سپرد کر دی اور فرمایا کہ جب میرا حسین شہید ہو جائے گا تو یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے گی۔ امام حسینؑ کی شہادت کی خبریں مسلسل مختلف انداز سے دی جاتی رہیں، یہاں تک امیرالمومنینؑ امام علیؑ صفین میں جاتے ہوئے سرزمین کربلا سے گزرے تو فرمایا کہ یہ عشاق کی قتل گاہ ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ ان کے خیموں کی جگہ یہ ہوگی، ان کے جانور باندھنے کی جگہ یہ ہوگی اور ان کے سامان کی جگہ یہ ہوگی۔ اس طرح کی تفصیلات کسی اور شخصیت کے بارے میں پہلے سے بیان نہیں کی گئیں۔
واقعۂ کربلا بذات خود ایک بہت مختلف واقعہ ہے، تاہم دنیا میں بہت سے حیران کن، المناک اور پرتاثیر واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن واقعۂ کربلا کی جس قدر تفصیلات تاریخ، احادیث اور روایات میں بیان کی گئی ہیں، وہ حیران کن ہیں۔ امام حسینؑ کے مدینہ سے نکلنے، مکہ مکرمہ میں پہنچنے، مکہ سے آٹھ ذوالحجہ ساٹھ ہجری و کوفہ کی طرف روانگی اور مکہ و کوفہ کے درمیان کے واقعات اور مختلف مقامات پر پڑائو کی تفصیلات، راستے میں چھوڑ جانے والوں اور مختلف ملنے والے افراد کی تفصیلات، مختلف مقامات پر امام حسینؑ کے خطبات اور پھر کوفہ کے نزدیک حُر ریاحی کے لشکر کی آمد اور حاکم کوفہ کی طرف سے امام حسینؑ کو کوفہ کی طرف آگے بڑھنے سے ممانعت اور امام حسینؑ کا کربلا کی طرف رُخ کرنا اور وہاں پر اپنے قافلے کو پڑائو ڈالنے کا حکم ان تمام واقعات کی جزئیات تاریخ اور روایات میں موجود ہے۔ اسی طرح دو محرم سے لے کر شام غریباں تک کے واقعات، اسراء کے قافلے کی کوفہ اور پھر شام کی طرف روانگی، نیز شام میں پیش آنے والے واقعات ان سب کی تفصیلات تاریخ نے محفوظ کی ہیں۔
امام حسینؑ کی شہادت اور واقعۂ کربلا کو جس قدر یاد کیا گیا ہے اور یاد کیا جاتا ہے، اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب شہید اعظم میں لکھتے ہیں: ’’بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی الم ناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے، جس قدر اس حادثہ پر بہ چکے ہیں۔ تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا۔ امام حسینؓ کے خونچکاں حادثہ سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے۔‘‘ امام حسینؑ کے حوالے سے مقاتل کے عنوان سے بہت سی کتابیں معرض تحریر میں لائی گئی ہیں، جن میں واقعات کربلا اور شہادت امام حسینؑ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ کسی اور مقتل یا جنگ کے بارے میں اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں، جتنی امام حسینؑ کے مقتل پر لکھی گئی ہیں۔
بہت سے علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر اسلامی حکومت میں بڑا بگاڑ پیدا ہو جائے اور حکمران انحراف کا راستہ اختیار کرلیں تو ہمارے پاس ان کے خلاف اٹھنے کے لیے امام حسینؑ کا قیام ایک نمونے اور مستند دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جا رہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے، حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے مگر چلائی جا رہی ہے غیر اسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے، اگر حضرت حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت راہنمائی کی نہ تھی۔‘‘
مسلمانوں میں امام حسینؑ کی یاد منانے کا سلسلہ اس قدر وسعت اختیار کر گیا کہ دنیا بھر میں ایسی عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں کہ جو ذکر حسینؑ اور واقعۂ کربلا کے بیان کے لیے مختص کی جانے لگیں اور یہ سلسلہ تیز رفتاری سے آج بھی جاری ہے۔ یہ عمارتیں ایک ایک کمرے سے لے کر عظیم الشان محلات کی طرح تعمیر کی جاتی ہیں۔ دنیائے عرب اور ایران میں ان عمارتوں کو ’’حسینیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور ہمارے ہاں ’’امام بارگاہ‘‘ اور امام سے مراد امام حسینؑ ہی ہیں۔ شاید ایسی عمارتیں دنیا کے ایک سو سے زیادہ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے لاکھوں افراد ہیں کہ جو اپنے گھر کا ایک کمرہ حسینیہ کے طور پر وقف کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال دنیا میں کسی اور فرد اور کسی اور واقعے کے حوالے سے نہیں مل سکتی۔ کسی فرد کی یاد میں ایک یا ایک سے زیادہ عمارتیں ہوسکتی ہیں، لیکن اتنی کثیر بلکہ ان گنت تعداد میں پوری دنیا میں کسی ایک ہستی کے لیے اتنی عمارتوں کا مختص ہونا حیران کن ہے۔
واقعۂ کربلا نے شاعروں اور ادیبوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ دنیائے شعر و ادب میں بعض اصنافِ سخن امام حسینؑ کے لیے مختص ہو کر رہ گئی ہیں۔ اگرچہ اصولی طور پر یہ اصناف صرف امام حسینؑ کے لیے معرض وجود میں نہ آئی تھیں، لیکن آج اگر وضاحت نہ کی جائے تو سلام اور مرثیہ کے الفاظ سے پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ یہ امام حسینؑ اور واقعہ کربلا سے متعلق ہے۔ پوری دنیا میں امام حسینؑ کی یاد میں شعری نشستیں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی نشستوں کے لیے ’’مسالمہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس سے ہر شاعر یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ امام حسینؑ کی یاد میں شعری نشست کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ رثائی ادب کے نام سے اردو ادب کی ایک شاخ معرض وجود میں آچکی ہے، تہذیب کربلا کے عنوان سے خطابت اور ادبی کتابوں کا ایک الگ سلسلہ قائم ہے۔ امام حسینؑ کے لیے مختص مجالس، جلوس ہائے عزا، ماتم، پانی کی سبیلیں، محرم الحرام میں ہر طرف دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سب واقعۂ کربلا سے جڑی ہوئی عشق و محبت کی یادیں ہیں۔
امام حسینؑ نے دلوں میں ایسے چراغ روشن کیے ہیں کہ جن کا نور حق و باطل میں تمیز کا ذریعہ بنتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی: “اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ حَرَارَۃٌ فِی قُلُوبِ الْمُوْمِنِینَ لَنْ تَبْرُدَ أبَداً”، “یقیناً قتل حسین سے مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگی، جو ہرگز ٹھنڈی نہ ہو سکے گی۔” ویسے تو ہمارے ہاں مرحومین کا چہلم منانے کی ایک رسم موجود ہے، لیکن بڑی شخصیات جن میں انبیاء، اولیاء اور دیگر بزرگان دین شامل ہیں، کا ہر سال چہلم منانے کا کوئی سلسلہ دنیا میں موجود نہیں۔ ہاں امام حسینؑ کا چہلم صدیوں سے منایا جا رہا ہے۔ عصر حاضر میں اس دن کی یاد نے ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، جس نے دنیا کو انگشت بدنداں کر رکھا ہے۔ قصہ ناتمام ہے، اس موضوع پر لکھنے کے لیے ابھی مزید کئی نشستیں درکار ہیں۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز