×

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

سید اسد عباس

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے 23 دن بعد افغان طالبان کے ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت طالبان کی 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا، جس میں 20 وزراء اور سات نائب وزراء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور افغان مرکزی بینک کے سربراہ سمیت حکومت کے ڈائریکٹر برائے انتظامی امور کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ ان 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔ طالبان کی اس نئی حکومت اور کابینہ میں 15 افراد کا تعلق جنوبی افغانستان سے، 10 کا جنوب مشرقی، پانچ کا مشرقی اور تین کا شمالی افغانستان سے ہے۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو افغان حکومت میں رہبر یا امیر المومنین کی حیثیت حاصل ہے جبکہ ملا حسن اخوند افغانستان کے نئے وزیراعظم، ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی کو نائب وزرائے اعظم مقرر کیا گیا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ملا حسن ابتداء سے طالبان تحریک کے اہم رکن اور اس کے بانی ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو طالبان حلقوں میں خاصا احترام حاصل ہے۔ ملا حسن نوے کی دہائی میں طالبان کے وزیراعظم ملا محمد ربانی کے ساتھ نائب وزیراعظم رہے جبکہ سنہ 2001ء کی ابتدا میں ربانی کی وفات پر وہ ان کے جانشین بنے۔ اس کے علاوہ ملا حسن طالبان کی اس دس رکنی سربراہی کونسل میں بھی شامل تھے، جسے ملا عمر نے مئی 2002ء میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت کا آغاز کرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔ بعد کے برسوں میں ملا حسن طالبان کی اس سربراہی کونسل کے امیر بھی رہے، جو طالبان کا سب سے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارہ اور طالبان کے امیرالمومنین کے تحت کام کرتا ہے اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوا کہ طالبان سربراہ نے اس سربراہی کونسل کے کسی فیصلہ کو رد کیا ہو۔

افغانستان کے نئے نائب وزیراعظم مولوی عبدالسلام حنفی کا تعلق افغانستان کی ازبک قوم سے ہے اور وہ طالبان کے سیاسی دفتر کے رکن رہے ہیں۔ نائب وزیراعظم ملا برادر کا بھی طالبان تحریک میں اہم کردار رہا ہے۔ نائن الیون میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد ملا عمر نے انہیں اپنا نائب اور طالبان سربراہی کونسل کا سربرارہ مقرر کیا تھا، جو اس عہدہ پر سال 2009ء تک پاکستان میں سکیورٹی اداروں کی گرفتاری تک مقرر رہے۔ سنہ 2018ء میں رہائی کے بعد ملا برادر کو طالبان کے موجودہ سربراہ شیخ ہبت اللہ اخونزادہ کا نائب اور طالبان کے سیاسی کمیشن اور قطر میں واقع اس تنظیم کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس طرح ملا برادر کا نائن الیون کے بعد طالبان کے عسکری محاذ کے آغاز اور رہائی کے بعد امریکہ کے ساتھ طالبان مذاکرات میں اہم کردار رہا ہے، جو امریکہ کے ساتھ طالبان کے کامیاب امن معاہدہ پر منتج ہوا اور دو دہائی کی لڑائی کے بعد امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا اور طالبان کے افغانستان پر دوبارہ اقتدار کا سبب بنا۔ ملا حسن سے قبل سب سے پہلے ملا برادر کا نام طالبان وزیراعظم کے طور پر ابھر رہا تھا، مگر شاید بعض اندرونی وجوہات کی بنا پر ملا حسن کو اس عہدہ کے لیے ملا برادر پر سبقت دی گئی ہے۔

اس نئی کابینہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں طالبان کے دو اہم خاندانوں سے دو دو وزراء منتخب کیے گئے ہیں۔ جس میں طالبان کے بانی ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب عمری وزیر دفاع اور ان کے سوتیلے بھائی ملا عبدالمنان عمری فوائد عامہ کے وزیر ہیں۔ مولوی یعقوب سنہ 2016ء میں شیخ ہبت اللہ کے طالبان سربراہ منتخب ہونے کے بعد ان کے نائب اور طالبان عسکری ونگ کے سربراہ ہیں، جسے طالبان کی شیڈو وزارت دفاع بھی کہا جا سکتا ہے۔ ملا عمر کے گھرانے کے علاوہ طالبان کے سینیئر لیڈر مولوی جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی عرف خلیفہ کو وزیر داخلہ اور ان کے بھائی خلیل حقانی کو وزیر برائے مہاجرین مقرر کیا گیا ہے۔ سراج الدین بھی ملا یعقوب کی طرح طالبان کے نائب سربراہ ہیں۔ سراج اور خلیل دونوں امریکہ کے مطلوب افراد کی فہرست میں ہیں اور ان پر امریکہ نے بالترتیب دس اور پانچ ملین امریکی ڈالر کا انعام رکھا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ بھی حقانی گروپ کے قریبی تین دیگر افراد کو اس کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق طالبان تحریک کے ایک اور اہم رکن مولوی امیر خان متقی کو طالبان حکومت کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ متقی بھی ان دس اشخاص میں سے تھے، جنھیں ملا عمر نے نائن الیون کے بعد طالبان کی اول سربراہی کونسل میں شامل کیا تھا۔ وہ نوے کی دہائی میں طالبان کے وزیر برائے اطلاعات و کلچر بھی رہے اور نائن الیون کے بعد طالبان کے اسی کمیشن کے برسوں تک سربراہ بھی۔ ان کو دعوت و ارشاد کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا اور ان کی جگہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو اطلاعات و کلچر کمیشن کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ متقی کی نئی ذمہ داری میں ایک اہم کام طالبان مخالفین کو دعوت اور بغیر جنگ کے طالبان کا حامی بنانا تھا۔ طالبان کا اکثریتی صوبوں اور اضلاع پر بغیر جنگ کے قبضہ اور سابق افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز کے تسلیم ہونے کا اصل سبب متقی کی تجویز کردہ پالیسی کو گردانا جاتا ہے۔ متقی کے ساتھ شیر محمد عباس ستانکزئی کو نائب وزیر خارجہ منتخب کیا گیا ہے۔

ستانکزئی کو طالبان کے خارجہ امور میں اہم کردار کی وجہ سے عالمی سطح پر جانا جاتا ہے اور طالبان کے اندرونی حلقوں میں بھی انھیں کافی مقبولیت حاصل ہے۔ ستانکزئی طالبان تحریک کی ابتداء سے ان کے خارجہ امور کا اہم حصہ رہے ہیں اور اس وقت سے بیرون ممالک کے اہم سیاسی دوروں کے بھی رکن رہے۔ اس کے علاوہ نائن الیون کے بعد طالبان سیاسی دفتر اور امریکہ اور افغان حکومت سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی رہے۔ وہ ملا برادر سے قبل طالبان سیاسی کمیشن اور دوحہ کے سیاسی دفتر کے سربراہ بھی رہے۔ متقی کے علاوہ ستانکزئی اور ملا برادر کو وزارت خارجہ کے اہم امیدواروں میں شمار کیا جاتا تھا مگر اس وزارت کا قرعہ فال متقی کے نام نکلا۔ طالبان حکومت کی اس نئی کابینہ میں ان پانچ طالبان سینیئر کمانڈروں میں سے ان چار کو بھی شامل کیا گیا ہے جو سنہ 2014ء میں امریکہ کے گوانتنامو جزیرے میں واقع قید خانے سے کئی سال کی قید کے بعد طالبان کے زیر حراست ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے میں رہا کرائے گئے تھے۔ ان پانچ کمانڈروں میں ملا فاضل اخوند، ملا عبدالحق واثیق، ملا نوراللہ نوری، ملا خیر خواہ اور مولوی محمد نبی عمری شامل تھے۔

ملا واثیق انٹیلجنس چیف، ملا خیر خواہ وزیر برائے اطلاعات و کلچر، ملا نور وزیر برائے سرحدات و قبائل اور ملا فاضل کو نائب وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے جبکہ مولوی عمری کو افغان صوبہ خوست کا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون سے قبل ملا واثیق طالبان حکومت کے انٹیلجنس چیف قاری احمد اللہ کے دست راست اور اس کے ساتھ نائب وزیر برائے استخبارات تھے۔ قاری احمد اللہ افغانستان پر امریکی حملے کے آغاز میں مارے گئے۔ ملا فاضل نائین الیون سے قبل بھی طالبان کے نائب وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ تھے، مگر انھیں اب فقط ایک عہدہ دیا گیا ہے۔ ملا خیر خواہ بھی ماضی میں طالبان حکومت میں وزارت داخلہ سمیت کئی کلیدی عہدوں پر مقرر رہے۔ ملا نوری ماضی میں طالبان حکومت کے دیگر عہدوں کے ساتھ صوبہ بلخ کے گورنر ہونے کے ساتھ شمالی زون کے سربراہ رہے۔ طالبان حکومت میں سب سے دلچسپ تقرری فوج کے سربراہ کی ہے، جس کے لیے صوبہ بدخشان سے تعلق رکھنے والے تاجک النسل طالبان اہم کمانڈر قاری فصیح الدین کو منتخب کیا گیا ہے۔ طالبان کے لیے گذشتہ برسوں میں ان کی عسکری فتوحات کو دیکھتے ہوئے اس عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔

یاد رہے بدخشان ان دو صوبوں میں سے ایک تھا، جو نوے کی دہائی میں احمد شاہ مسعود کے زیر قیادت شمالی اتحاد کا گڑھ رہا اور طالبان آخر تک اس کو مکمل اپنے زیر قبضہ نہ لا سکے۔ نائن الیون کے بعد کے آخری برسوں میں یہاں سے قاری فصیح الدین اور دیگر تاجک طالبان کی صفوں میں شامل ہوگئے، جس کی وجہ سے طالبان کو مقامی آبادی میں نفوذ حاصل ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ قاری فصیح الدین نے شمال میں طالبان کے لیے ازبک اور تاجک جنگجوؤں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی، جس کے سبب حیران کن طور پر افغانستان کا شمال طالبان کا گڑھ بن گیا۔ یہ قاری فصیح الدین ہی تھے، جو شمال میں طالبان جنگجوؤں کے کمان دان اعلیٰ رہے اور ان کی سربراہی میں طالبان نے افغانستان میں شمالی صوبوں کو فتح کیا جبکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ شاید ماضی کی طرح اس بار بھی طالبان کو یہاں سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سال کے ابتدائی مہینوں میں قاری فصیح الدین کو ملا یعقوب کے تحت طالبان ملٹری کمیشن کا نائب سربراہ برائے شمال افغانستان مقرر کیا گیا تھا۔ قاری فصیح الدین کے علاوہ دو دیگر غیر پشتون افراد کو بھی حکومت کا حصہ بنایا گیا ہے، جس میں نائب وزیراعظم مولوی عبدالسلام حنفی اور وزیر برائے اقتصاد قاری دین محمد حنیف شامل ہیں۔

34 رکنی کابینہ اور اہم تقرریوں میں محض تین غیر پشتون افراد کا ہونا طالبان کے ان دعووں اور افغان سیاسی حلقوں سے امریکی یقین دہانیوں کی نفی کرتا ہے، جس میں ہر بار یہ کہا گیا کہ طالبان کی حکومت میں تمام افغان اقوام کو نمائندگی حاصل ہوگی۔ طالبان حکومت اور کابینہ کے اعلان کے ساتھ اس پر افغان سوشل میڈیا میں جو سب سے اہم سوال سامنے نظر آتا ہے، وہ یہی ہے کہ کیا کثیر القومی اور افغان قوم کی نمائندہ حکومت سے طالبان کی مراد یہ تھی۔؟ اس کے جواب میں طالبان کی جانب سے ایک جواب نظر آتا ہے کہ یہ تو محض ایک عبوری حکومت ہے، جو افغانستان میں طالبان کی دائمی حکومت کے لیے کام کرے گی، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ حکومت کب تک رہے گی۔ ماضی میں بھی اپنی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے دفاع میں طالبان کا فقط یہی جواب ملتا رہا کہ چونکہ وہ ملک کے شمال میں سیاسی مخالفین کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، لہذا جب تک وہ سارے ملک کا اقتدار حاصل نہیں کرتے تو ان کی حکومت میں موجود خامیوں مثلاً عورتوں کی تعلیم وغیرہ کے اہم مسائل کا حل ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز

Share this content: