مسلم یونین کا خواب
انسان روز اول سے اپنے احوال کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس کی ترقی کا نقطہ آغاز ہمیشہ اونچے خوابوں اور تخیلات سے ہوتا ہے۔ کبھی ہواوں میں… مسلم یونین کا خواب
انسان روز اول سے اپنے احوال کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس کی ترقی کا نقطہ آغاز ہمیشہ اونچے خوابوں اور تخیلات سے ہوتا ہے۔ کبھی ہواوں میں… مسلم یونین کا خواب
جب سے افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہوا ہے، داعش کی فعالیت اور کارروائیوں میں نسبتاً اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس وقت طالبان کو سب سے زیادہ خطرہ داعش ہی سے ہے۔ ماضی میں طالبان حکومت کے مقابلے میں شمالی اتحاد قائم تھا اور افغانستان کے شمال کے کچھ علاقوں پر ان کا اقتدار بھی قائم تھا، لیکن چند ماہ قبل احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی قیادت میں وادی پنج شیر میں جو مزاحمت معرض وجود میں آئی، طالبان کی اس کے خلاف فوجی کامیابی کے بعد اب اصولی طور پر کوئی قابل ذکر مزاحمت ان کی طرف سے باقی نہیں رہی۔ مزاحمت کا عنوان ان کے لیے اب داعش ہی ہے۔
افغانستان میں داعش کا قیام
افغانستان میں داعش، چند حقائق
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔ طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں
گذشتہ دنوں شوریٰ علمائے شیعہ افغانستان کا تین روزہ اجلاس منعقد ہوا، جس کے اختتام پر ایک چودہ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی دوران میں افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے عبوری کابینہ کا اعلان ہوا۔ علمائے شیعہ کے اعلامیے کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شیعہ اس نئی حکومت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور طالبان سے ان کی توقعات اور مطالبات کیا ہیں۔ اسے سامنے رکھ کر طالبان حکومت اور شیعیان افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں کچھ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں طالبان اور شیعوں کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اسی طرح ایران کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ تلخ ہی رہے ہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں شدید قسم کے جذبات پائے جاتے تھے۔ افغانستان میں گزرنے والے بیس سالہ دور نے طالبان اور شیعہ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان
یوں لگتا ہے کہ پوری دنیا میں بس یہی سب سے اہم سوال گردش میں ہے کہ کیا طالبان واقعی بدل گئے ہیں۔ علامہ اقبال کہ تو کہہ گئے ہیں:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں
‘‘
کیا طالبان واقعی بدل گئے ہیں؟
امریکی جائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ طالبان نے تزویراتی تیزی حاصل کی ہے اور وہ اس وقت بڑی آبادی والے علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں سے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ افغان حکومت نے طالبان کی پیش رفت کو روکنے کے لیے ملک کے 34 میں سے 31 صوبوں میں رات کا کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کنڑ کے علاقے سے 46 افغان فوجی جن میں 5 افسر بھی شامل ہیں، اپنی پوسٹیں چھوڑ کر چترال کے مقام سے سرحد پار کرکے پاکستان کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔اپ ڈیٹڈ طالبان، امن مذاکرات اور امریکی کوششیں
گذشتہ قسط میں ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ افغان جنگ جہاں عالمی طاقتوں کے مابین بین الاقوامی سیاست اور مفادات کی جنگ ہے، وہیں خطے کے ممالک کے لیے یہ اپنے مفادات اور ملکی سالمیت کے تحفط کی جنگ بھی ہے۔ بیس برس افغانستان میں قیام کے بعد امریکا اور نیٹو فورسز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ گیارہ ستمبر 2021ء کو افغانستان سے چلے جائیں گے۔ ابھی گیارہ ستمبر دور ہے اور امریکی فوجی اپنے اڈے چھوڑ کر رات کی تاریکی میں غائب ہو رہے ہیں۔کیا امریکہ افغانستان سے خالی ہاتھ نکل رہا ہے؟(2)
افغانستان کے بعد امریکا کو عراق سے بھی اپنے پر پرزے سمیٹنے ہوں گے، امریکہ نے عراق سے اپنی واپسی کے پروانے پر دستخط اس روز کیے جب اس نے عراقی سرزمین پر عراقی رضاکار فورس کے کمانڈر ابو مہدی المہندس اور القدس بریگیڈ کے معروف سربراہ جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کیا۔ یہ جنوری 2020ء کی بات ہے۔ الحشد الشعبی نے ایک برس انتظار کیا کہ امریکا ہماری سرزمین کو قانونی انداز سے چھوڑ جائے۔ پارلیمان کی قراردادوں، سیاسی شخصیات کے بیانات کے باوجود امریکہ ٹس سے مس نہ ہوا۔داعش کی ماں کب تک خیر منائے گی؟
پس منظر اور پیش منظر:
دنیا بھر میں ایک امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او کے پروگرام ’’ایکزیوس‘‘ کے میزبان صحافی جوناتھن سوان کے ساتھ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے انٹرویو کی دھوم ابھی باقی تھی اور عمران خان کا جملہ ’’Absolutely not‘‘ ہرگز نہیں، دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا کہ ایسے میں ان کا ایک اہم مضمون واشنگٹن پوسٹ میں سامنے آیا، جس میں رہا سہا پردہ بھی چاک کر دیا گیا اور امریکہ کو فوجی اڈوں کی نئی فرمائش پر صاف انکار کی وجوہات خود وزیراعظم کی طرف سے سامنے آگئیں۔عمران خان کا امریکا کو جرات مندانہ جواب
گذشتہ چند دنوں میں افغانستان میں طالبان نے پے در پے فتوحات حاصل کی ہیں۔ انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں پسپا ہو رہی ہیں۔ کابل میں ایک تشویش و اضطراب کا عالم ہے۔ برسراقتدار سیاستدان اپنے حامیوں میں اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔ انھیں کسی بھی وقت توقع ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔ اگرچہ طالبان نے ابھی تک بڑے شہروں میں سے کسی پر قبضہ نہیں کیا، لیکن سرکاری فوجوں کی جو نفسیاتی کیفیت سامنے آرہی ہے، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور افغانستان کا مستقبل
یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت داعش کے بہانے افغانستان میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے اشارے سامنے آرہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کو فوجی مداخلت بہت مہنگی پڑی ہے۔ گویا ان کے نزدیک امریکی فوجیوں کے عراق اور افغانستان سے انخلاء کی بنیادی وجہ امریکی فوج اور مشینری کی وہاں موجودگی کا مہنگا ہونا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کے لیے یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے کہ دہشت گرد گروہوں سے کام لیا جائے اور ملکوں کو غیر مستحکم کرکے وہاں سے اپنے مالی اور تزویراتی مفادات حاصل کیے جائیں۔طالبان امریکہ امن معاہدہ اور داعش