Skip to content

اعلان بالفور سے حماس کو دہشتگرد قرار دینے تک

مجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے از حد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور اس کی توثیق ہماری کابینہ بھی کرچکی ہے: "شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی، مگر اس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی مسلمان اور مسیحی کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔” میں بہت ممنون ہوں گا، اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔
آپکا مخلص
آرتھر جیمز بالفور سیکریٹری خارجہ برطانیہ
2 نومبر 1917ء
اعلان بالفور سے حماس کو دہشتگرد قرار دینے تک

کتاب: تحفۂ درویش از ایران

میں ایران سے واپس آیا تو بچوں نے اپنی ماما سے پوچھا: بابا ایران سے کیا لائے ہیں؟ انھوں نے کہا: حسب معمول تسبیح، سجدہ گاہ اور کتابیں لائے ہوں گے۔ تسبیحیں اور سجدہ گاہیں تو بیگم کے حوالے کر دیں کہ جو تحفہ مانگے، اسے دے دیں اور کتابیں، کتابخانے کے مسئول مولانا عرفان حسین کے حوالے کر دیں کہ ان کا اندراج کرکے کتابخانے میں متعلقہ موضوع کے مطابق رکھ دیں۔ اس مرتبہ فیس بک پر بھی چند کتابوں کی تصاویر احباب کے اشتہائے مطالعہ کے لیے جاری کر دیں۔ ان میں سے ایک حضرت نورالدین عبدالرحمن جامی کا دیوان ہے، دوسری کتاب ایران کے معروف شاعر نظامی گنجوی کی زندگی اور ان کے دور کے بارے میں ہے، جو محمد امین رسول زادہ نے لکھی ہے اور تیسری ایران کی نامور شاعرہ پروین اعتصامی کا دیوان ہے۔ کتاب: تحفۂ درویش از ایران

کتاب: تحفۂ درویش از ایران

میں ایران سے واپس آیا تو بچوں نے اپنی ماما سے پوچھا: بابا ایران سے کیا لائے ہیں؟ انھوں نے کہا: حسب معمول تسبیح، سجدہ گاہ اور کتابیں لائے ہوں گے۔ تسبیحیں اور سجدہ گاہیں تو بیگم کے حوالے کر دیں کہ جو تحفہ مانگے، اسے دے دیں اور کتابیں، کتابخانے کے مسئول مولانا عرفان حسین کے حوالے کر دیں کہ ان کا اندراج کرکے کتابخانے میں متعلقہ موضوع کے مطابق رکھ دیں۔ اس مرتبہ فیس بک پر بھی چند کتابوں کی تصاویر احباب کے اشتہائے مطالعہ کے لیے جاری کر دیں۔ ان میں سے ایک حضرت نورالدین عبدالرحمن جامی کا دیوان ہے، دوسری کتاب ایران کے معروف شاعر نظامی گنجوی کی زندگی اور ان کے دور کے بارے میں ہے، جو محمد امین رسول زادہ نے لکھی ہے اور تیسری ایران کی نامور شاعرہ پروین اعتصامی کا دیوان ہے۔ کتاب: تحفۂ درویش از ایران

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور ہم

انسانی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے قوانین، قراردادوں، اداروں اور پابندیوں کے سلسلے کے باوجود کیا دنیا سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا خاتمہ ہوسکے گا یا نہیں۔؟ اس سوال کا سادہ ترین جواب ہے کہ نہیں۔ دنیا ہتھیاروں کو کوستی بھی رہے گی، ان پر پچھتاتی بھی رہے گی، اس کے بارے میں قوانین بھی بناتی رہے گی، تاہم اس وقت تک ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتی، جب تک ان کے ذہنوں سے تسلط، عدم اعتماد اور سبقت لے جانے کی فکر محو نہیں ہوتی۔ ابھی حال ہی میں روس نے ایک سیٹلائیٹ شکن میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ اس میزائل نے خلا میں 420 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنی ہی ایک ناکارہ سیٹلائیٹ کوسموس کو نشانہ بنایا۔ اس دھماکے کی وجہ سے سیٹلائیٹ کے 1500 کے قریب ٹکڑے پوری خلا میں پھیل گئے، جس کے سبب عالمی خلائی مشن آئی ایس ایس خطرے سے دوچار ہوگیا اور اس پر موجود خلابازوں، جن میں دو روسی خلا باز بھی تھے، کو حفاظتی کیپسول میں جانا پڑا۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور ہم

علامہ اقبال پر کیا گزر رہی ہے؟

علامہ اقبال کو دریافت کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ہنوز ان کے سارے ابعاد شاید کسی ایک فرد پر پوری طرح آشکار نہ ہوئے ہوں۔ بڑی روحوں کی بازیافت یا دریافت کے لیے بھی بڑی روح درکار ہوتی ہے۔ ان کے گیت، ان کی نظمیں، ان کی غزلیں ہر روز پڑھی جاتی ہیں، گائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے اچھے سے اچھے گائیک اور اعلیٰ درجے کے قوال اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے رہتے ہیں۔ مولوی صاحبان شاید سب سے زیادہ علامہ اقبال سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کے جمعہ کا خطبہ شاید ہی علامہ اقبال کے شعر سے خالی ہو۔ وہی اقبال جنھوں نے ملّا کے خلاف بہت کچھ کہہ رکھا ہے۔ کوئی ملّا نہیں سمجھتا کہ اس کا اصل مخاطب وہ خود ہے۔ مذہبی جماعتیں چاہے فرقہ وارانہ ہوں یا غیر فرقہ وارانہ، شاید ہی ان میں سے کوئی علامہ اقبال سے اپنے آپ کو روگرداں قرار دے۔ دیوبندی مکتب فکر کے ایک بڑے بزرگ حسین احمد مدنی کے حوالے سے ان کا ایک بند مشہور ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس کے محتویٰ سے رجوع کر لیا تھا۔ تاہم علامہ اقبال کا کلام دیوبندی علماء بھی اپنی تقریروں میں استعمال کرتے ہیں بلکہ ناچیز ایسے دیوبندی علماء کو بھی جانتا ہے، جنھوں نے باقاعدہ علامہ اقبال کی نظموں کے مختلف پہلوئوں کے حوالے سے کتاب یا کتابچہ لکھا ہے۔ علامہ اقبال فرقہ واریت کے خلاف تھے اور اتحاد امت کے عظیم داعی تھے، لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے بہت سے مولوی صاحبان ہیں، جن کی شہرت فرقہ وارانہ ہے اور وہ مسلسل علامہ اقبال کے کلام سے استفادہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال پر کیا گزر رہی ہے؟

طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(2)

گذشتہ تحریر میں ہم نے دیکھا کہ طلبہ تنظیمیں کیا ہیں؟ ان کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کسی بھی علاقائی، بین الاقوامی اور نظریاتی تحریک میں طلبہ تنظیم کا کیا کردار ہے۔؟ طلبہ کو کس قیمت پر ان تنظیموں کا حصہ بننا چاہیئے۔؟ ہم نے یہ بھی جانا کہ پاکستان میں اسلامی فکر کی حامل تنظیمیں کیوں معرض وجود میں آئیں۔؟ ان تنظیموں کی مشکلات کیا رہیں۔؟ ایک اسلامی طلبہ تنظیم کے سابق رکن کی حیثیت سے میں نے مشاہدہ کیا کہ طلبہ تنظیمیں بہت سے موارد میں طلبہ اور معاشرے کے لیے مفید ہوتی ہیں، اگرچہ طلبہ کی تعلیم کی جانب عدم توجہی کے حوالے سے ان تنظیموں کے کچھ برے اثرات بھی ہوتے ہیں، جن کا سدباب کیا جانا چاہیے۔ تاہم بالعموم تنظیمی ماحول انسان کی فردی صلاحیتوں منجملہ خود اعتمادی، نظم، تحرک، عزم، سماجی برتاؤ، بصیرت، قیادت، سیاسی سوجھ بوجھ، مدیریت، ایثار، قربانی، انسانوں اور معاشرے کی پہچان کو بہتر بنانے نیز سماجی خدمت، معاشرے کی بہتری کا شعور، مختلف صلاحیتوں کے حامل لوگوں کے ہمراہ کام کرنا اور دیگر مہارتوں کو جلا بخشنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(2)

طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(1)

طلبہ کا کام تو فقط تعلیم حاصل کرنا ہونا چاہیئے، جس مقصد کے لیے والدین ان کو کالج یا یونیورسٹی میں بھیجتے ہیں۔ عالمی سیاست، علاقائی سیاست، سماجی خدمات، طلبہ کو مدد فراہم کرنا، تنظیم سازی اور اس جیسے کام طلبہ کو نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ ایک نکتہ نظر ہے، جو اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، جس قدر دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں طلبہ تنظیم، سوسائٹی، کلب کا تصور بہت پرانا ہے۔ پندھرویں صدی عیسویوں میں یورپ میں طلبہ سوسائٹیوں کا آغاز ہوا۔ دنیا کی اکثر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کی سوسائٹیاں موجود ہیں، جن میں ڈیبیٹ سوسائٹی، انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ سوسائٹی، راک سوسائٹی، پروفیشنل سوسائٹیاں قابل ذکر ہیں۔ یہ تنظیمیں اور سوسائٹیاں ساتھی طلبہ کو مختلف موارد میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ طلبہ تنظیم اور اسلامی طلبہ تنظیم(1)

آئی ایس او، تعمیر و تربیت کے پچاس برس

نصف صدی ایک بہت بڑا عرصہ ہے، خاص طور پر ایک طلبہ تنظیم کے لیے۔ ہمارے سامنے کئی طلبہ تنظیمیں ابھریں اور دم توڑ گئیں۔ ان میں کئی تو ایسی ہیں کہ تاریخ بھی جنھیں یاد نہ رکھ سکے گی، کیونکہ ان کے دامن میں ایسے کارنامے ہی نہیں کہ جو اوراق تاریخ کی زینت بن سکیں۔ طلبہ تنظیموں ہی کا کیا کہنا، کئی سیاسی جماعتیں ہمارے سامنے قائم ہوئیں، انھوں نے بڑا زور و شور برپا کیا، لیکن بقول خواجہ آتش: آئی ایس او، تعمیر و تربیت کے پچاس برس

تحریک لبیک کا مطالبہ اور بوسیدہ ریاستی مشینری

تحریک لبیک پاکستان ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت تحریک لبیک کیساتھ ہونیوالے معاہدے پر عمل کرے۔ حکومت پاکستان اور تحریک لبیک کے مابین ہونیوالےمعاہدے کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجے اور فرانسیسی سفارتخانے کو بند کرے، یہ مطالبات اس وقت سامنے آئے جب فرانسیسی جریدے چارلی ہبڈو نے رسالت ماب ؐ کا نعوذباللہ استہزاء کرنے کی غرض سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا اور فرانسیسی صدر نے اس اشاعت کا سیاسی آزادی کے نام پر دفاع کیا۔ تحریک لبیک کا مطالبہ اور بوسیدہ ریاستی مشینری

کیا پیغام وحدت عوام تک پہنچا ہے؟

دنیا بھر میں مسلمانوں میں اتحاد و وحدت پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ویسے تو عصرِ جدید میں اس سلسلے میں پہلی بھرپور آواز سید جمال الدین افغانی کی تھی۔ اُن کے بعد اور بھی بڑی شخصیات نے یہ پرچم بلند کیا، جن میں حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا نام نمایاں ہے۔ اخوان المسلمین کے بانی حسن البناء بھی اتحاد بین المسلمین کے پیامبر تھے۔ مولانا مودودیؒ بھی ان بلند مرتبہ افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم زیادہ پرزور بھرپور اور طاقتور آواز امام خمینیؒ کی ثابت ہوئی، جن کی قیادت میں 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ انھوں نے ایجاد وحدت کے لیے کئی ایک اقدامات کیے، جن میں 12 ربیع الاول تا 17 ربیع الاول کو ہفتۂ وحدت قرار دینا نہایت اہم ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں میں اہل سنت میں 12 ربیع الاول کا دن یوم ولادت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر منایا جاتا ہے اور اہل تشیع کے ہاں 17 ربیع الاول کا دن اس مناسبت سے رائج ہے۔ کیا پیغام وحدت عوام تک پہنچا ہے؟

الہیٰ سیاست کے خدوخال اسوہ رسول ؐ کے تناظر میں

آج سیاست دھوکہ دہی، استحصال اور بے اصولی کے مترادف ہوچکی ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک، یونین کونسل سے لے کر ملکی اور عالمی سیاست تک، مذہبی سے لے کر سیکولر سیاست دانوں تک عموماً یہی عالم ہے۔ ہم اس امر سے آگاہ ہیں کہ علوم کی ترقی کے ساتھ سیاست نصاب کے طور پر بھی پڑھائی جانے لگی، علم سیاست کو سیاسیات (Political Science) کہتے ہیں۔ آج جس سیاست کو ہم جانتے ہیں، عملی سیاست ہے جبکہ جو کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے، وہ علمی سیاست ہے۔ علمی سیاست میں بنیادی طور پر سیاست کے اہداف و مقاصد کو بیان کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر سیاست کو کیا ہونا چاہیئے جبکہ عملی سیاست وہ ہے، جس کو انسان مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔

الہیٰ سیاست کے خدوخال اسوہ رسول ؐ کے تناظر میں

عظمت رسول ؐ قرآن کی روشنی میں

بسلسلہ ہفتہ وحدت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اسلامؐ، نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑ، اور عیسٰی ؑ جیسے انبیائے الہیٰ کے تسلسل میں ہی تشریف لائے۔ آپ ؐ اسی ایک خالق مالک کے فرستادہ تھے، جس نے پہلے نبیوں کو بھیجا، تاکہ وہ نوع انسانی کی ہدایت کرسکیں۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر قرآن حکیم میں آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
عظمت رسول ؐ قرآن کی روشنی میں