Skip to content

خالق بھی جس کے حسن کا قائل دکھائی دے

سید المرسلین، اگر غور کیا جائے تو یہی ایک لقب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم انسانیت پر عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے، تاہم اللہ کریم نے اپنے کلام میں اپنے محبوب کو مختلف اسماء، القاب اور صفات سے پکارا ہے۔ احمد، محمود، محمد، عبد اللہ، صادق، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، بشیر و نذیر، داعی، سراج منیر، الامی، کافۃ للناس، رسول، شہید، خلق کی انتہاء، لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے والا، لوگوں کے لیے نرم دل، تزکیہ کرنے والا، حکمت سکھانے والا، لوگوں کے لیے طلب مغفرت کرنے والا، لوگوں کے لیے رضائے پروردگار طلب کرنے والا، استقامت والا، امر و نہی کرنے والا، نماز اور صبر کی تلقین کرنے والا، تسبیح کرنے والا، در یتیم، کریم، توکل کرنے والا، امین، صادق، آیات تلاوت کرنے والا، مشورہ کرنے والا، طہ، یٰس، مدثر، مزمل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ خالق بھی جس کے حسن کا قائل دکھائی دے

ختم نبوت عقیدہ یا فریضہ

ختم نبوّت عقیدہ یا فریضہ

تحریر: سیدہ تسنیم اعجاز

حق تعالٰی نے انسان خلق فرمایا تو اس کی ہمہ جہت ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا ۔اگر ایک طرف اسے مادّی نعمتوں سے مالامال کیا تو دوسری جانب ہمہ گیر معنوی نعمتیں بھی عطا کیں؛ دنیا قائم کی تو اس کی تاریکیوں کو نور میں بدلنے کے لیے آسمانِ دنیا پر شمس وقمرکو روشن کیا اور روحِ انسانی کو ظلمتوں سے بچانے کے لیے آسمانِ ہدایت پر ایسے چراغ روشن کیے جو رہتی دنیا تک انسانیت کو ظلمتوں سے بچاتے رہیں گے۔ اگر اللہ کا نظام ہدایت نہ ہوتا تو قابیل اپنی نادانستگی کے اندھیروں میں حیران و سرگرداں ہی رہتا ۔۔۔ لہذا جب تک روئے زمین پر انسان باقی ہے نظام ہدایت بھی باقی ہے۔ ختم نبوّت عقیدہ یا فریضہ

فتووں کے زور سے مسلک کا دفاع

ایک عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مولوی صاحبان فتووں کے زور سے اپنے مسلک کے دفاع، اسلام کے پھیلاؤ، انحراف سے بچاؤ اور اپنے تئیں گمراہی سے روکنے کا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ سوال ہمارے نزدیک بہت اہم ہے کہ کیا فتوے کے زور سے لوگوں کو نئی باتوں کے سوچنے سے روکا جا سکتا ہے، مختلف رائے اختیار کرنے سے بچایا جاسکتا ہے، اپنے تصور اسلام کا دفاع کیا جاسکتا ہے اور اسلامی معاشرے کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔؟ اس کا جواب خارج میں موجود حقائق سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فتویٰ باز ملاؤں نے اپنے افکار اور عقائد کے پیکیج کو پوری طور پر قبول نہ کرنے والے ہر فرد کو ہمیشہ گمراہ، منحرف اور فاسق یہاں تک کہ کافر و مرتد قرار دیا ہے۔ یہ سلسلہ پیہم جاری ہے۔ فتووں کے زور سے مسلک کا دفاع

آئیے اسوۂ نبوت کے آئینے میں خود کو دیکھیں

ربیع الاول کا مہینہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد سے مختص ہے۔ اگرچہ آپؐ کی یاد کسی خاص وقت سے بے نیاز اور بالاتر ہے، تاہم یہ آپؐ کی ولادت کا مہینہ ہونے کی وجہ سے خصوصیت رکھتا ہے۔ اس لیے آپ کے چاہنے والے اس مہینے میں آپؐ سے اظہار محبت کا طرح طرح سے اور خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خیرالبشر کا مقام عنایت فرمایا۔ آپؐ کی ذات جلال و جمال الہیٰ کا پَرتَو اور اسمائے الہیٰ کی جلوہ گاہ ہے۔ جس کسی کو بھی کمال کی طرف ایک قدم بڑھانا ہو، دراصل اسے آپؐ ہی کی طرف ایک قدم بڑھانا ہے، کیونکہ کمال کی بلند ترین چوٹی پر آپؐ ہی کا وجود اطہر جلوہ گر ہے۔ اس لیے اس مہینے میں آپؐ کے حقیقی عاشقوں اور کمال کے طالبوں کے لیے ضروری ہے کہ آپؐ کے آئینۂ اوصاف میں نظر کریں اور اپنے آپ کو سنوارنے کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں یہی چاہا ہے کہ ہم آپؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائیں۔ آئیے اسوۂ نبوت کے آئینے میں خود کو دیکھیں

امریکی سرپرستی میں سعودی عرب میں نصابی کتب میں تبدیلیاں

چند برسوں سے مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ سعودی عرب میں مختلف تعلیمی مراحل میں نصابی کتب کے مواد میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ تقریباً پانچ برس پہلے سابق امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے کہا تھا کہ واشنگٹن بلاواسطہ سعودی عرب کی درسی کتب میں تبدیلی پر کام کر رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے نظریات اور سعودی عرب کے بارے میں ان کے نئے وژن 2030 سے ہم آہنگ ہیں۔ اس وژن کے مطابق نئے نصاب میں دیگر ممالک کی تاریخ اور مختلف ثقافتوں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی گئی ہیں، البتہ تبدیلیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ قبل ازیں جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو امریکہ کی نظارت میں سعودی عرب کی درسی کتب میں جہاد و شہادت سے متعلق آیات اور احادیث شامل کی گئی تھیں۔ اس سلسلے میں علماء کے فتاویٰ کو بھی شامل نصاب کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ اور بعدازاں داعش اور جبھۃ النصرۃ جیسے گروہ اسی نصاب اور انہی فتووں کے نتیجے پیدا ہوئے۔ امریکی سرپرستی میں سعودی عرب میں نصابی کتب میں تبدیلیاں

روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر

’’مشی‘‘ ان دنوں تو ہر زبان پر ہے اور اس کا پس منظر اربعین حسینی کے موقع پر کربلائے معلیٰ کی طرف زائرین کا پاپیادہ سفر ہے۔ اس پاپیادہ سفر ہی کو عربی زبان میں ’’مشی‘‘ (واک) کہتے ہیں۔ دنیا میں روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر کوئی نیا نہیں بلکہ صدیوں سے مختلف ملکوں میں اور مختلف قوموں میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ خانۂ کعبہ کی طرف پیدل جانے کی رسم بھی بہت قدیمی ہے۔ اگرچہ آنحضرتؐ، آپؐ کے صحابہؓ اور اہل بیتؑ سوار ہو کر بھی خانۂ خدا کی طرف جاتے رہے ہیں، لیکن وہ سالہا سال پیدل چل کر بھی حج اور عمرہ سے شرفیاب ہوتے رہے ہیں۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ نے پچیس مرتبہ مدینہ منورہ سے پاپیادہ زیارت خانہ خدا کے لیے سفر کیا۔ امام حسینؑ کے بارے میں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پچیس حج پاپیادہ کیے۔ اسی پس منظر میں یہ شعر ہے: ذرا یہ سوچو جو حج کو پچّیس بار آیا ہے پا پیادہ
وہ ترکِ احرام کر رہا ہے تو کس الم سے گزر رہا ہے
روحانی مراکز کی طرف پیدل سفر

بے قرار دل تو کربلا میں ہیں

جوں جوں اربعین حسینی نزدیک آرہا ہے، ساری دنیا سے بے قرار دلوں کا رُخ کربلا کی طرف ہوگیا ہے۔ کرونا کی وبا کا یہ دوسرا برس ہے۔ اس وبا کے بعد سے پوری دنیا کے معاملات درہم برہم ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے طاقتور ملک اس آسمانی بلا کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں۔ زمینی ٹریفک کبھی جام ہو جاتی ہے اور کبھی رینگنے لگتی ہے۔ آسمانی ٹریفک بھی کبھی پرواز کا ارادہ کرتی ہے اور کبھی اس کا حوصلۂ پرواز مدہم پڑ جاتا ہے، لیکن عشق کے معمولات وہی ہیں بلکہ جب غم ہجراں کی آنچ تیز ہوتی ہے تو بے قراری سِوا ہو جاتی ہے۔ دو سال پہلے تو نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ سب راستے کربلا کو جاتے ہیں۔ کروڑوں انسان ہزاروں رکاوٹیں عبور کرکے کربلا جا پہنچے تھے۔ اربعین حسینی دنیا کے لیے ایک نیا عالم گیر عنوان بن کر ابھر آیا تھا۔ اربعین حسینی ویسے تو شہادت کبریٰ کے بعد سے خانوادہ نبوت کے مریدوں اور عاشقوں کے لیے ظلم یزیدی کے خلاف احتجاج و عزاء کا عنوان رہا ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ روز روز عاشورہ کی مانند دنیا بھر میں عزادارانِ حسینی کے لیے اظہار جذب و عشق کے باقاعدہ اور منظم عوامی سلسلوں کا ایک روز بن گیا۔ بے قرار دل تو کربلا میں ہیں

طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔ طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان

گذشتہ دنوں شوریٰ علمائے شیعہ افغانستان کا تین روزہ اجلاس منعقد ہوا، جس کے اختتام پر ایک چودہ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی دوران میں افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے عبوری کابینہ کا اعلان ہوا۔ علمائے شیعہ کے اعلامیے کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شیعہ اس نئی حکومت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور طالبان سے ان کی توقعات اور مطالبات کیا ہیں۔ اسے سامنے رکھ کر طالبان حکومت اور شیعیان افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں کچھ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں طالبان اور شیعوں کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اسی طرح ایران کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ تلخ ہی رہے ہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں شدید قسم کے جذبات پائے جاتے تھے۔ افغانستان میں گزرنے والے بیس سالہ دور نے طالبان اور شیعہ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان

سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز

سید علی گیلانی کی رحلت فقط مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام حریت پرست انسانیت کے لیے ایک سانحہ ہے، یہ ایک بہت بڑے شخص کا سانحہ ارتحال ہے۔ 92 برس کی زندگی میں سید علی گیلانی نے 14 برس کی باقاعدہ قید کاٹی اور 12 برس سید علی گیلانی گھر میں نظر بند رہے، جو ایک طرح کی قید ہی ہے۔ پس آزادی اور بڑے انسانی مقاصد کی خاطر قید رہنے والے افراد میں سید علی گیلانی کا ایک بڑا نام ہے۔:
سید علی گیلانی اپنے بڑے ہدف اور مقصد کی خاطر تقریباً 26 برس قید رہے۔
سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز

saqib akhbar

افغانستان، امریکہ کی تربیت یافتہ ایک اور فوج کا عبرتناک انجام

یکم جون 2021ء کو افغانستان میں طالبان نے اپنی نئی معرکہ آرائی کا آغاز کیا۔ 8 جون کو اسلام ٹائمز پر شائع شدہ اپنے ایک کالم ’’طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور افغانستان کا مستقبل‘‘ میں ہم نے لکھا تھا: ’’گذشتہ چند دنوں میں افغانستان میں طالبان نے پے در پے فتوحات حاصل کی ہیں۔ انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں پسپا ہو رہی ہیں۔ کابل میں ایک تشویش و اضطراب کا عالم ہے۔ برسراقتدار سیاستدان اپنے حامیوں میں اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔ انھیں کسی بھی وقت توقع ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔ اگرچہ طالبان نے ابھی تک بڑے شہروں میں سے کسی پر قبضہ نہیں کیا، لیکن سرکاری فوجوں کی جو نفسیاتی کیفیت سامنے آرہی ہے، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ وہ حکومتی عہدیدار جو پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ افغانستان، امریکہ کی تربیت یافتہ ایک اور فوج کا عبرتناک انجام