او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اور افغان بحران

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

ایک ایسا وقت جب پاکستانی عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، روپے کی قیمت مسلسل تنزلی سے دوچار ہے۔ پیٹرول اور اشیائے ضرورت بشمول زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ ملک میں گیس کا بحران ہے، ایسے میں حکومت پاکستان افغان ہمسایوں کے غم میں ہلکان ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بات اکثر پاکستانیوں کے لیے حیران کن ہوسکتی ہے۔ پاکستانی شہریوں اور ہمارے کشمیری بھائیوں کو سوال کرنے کا حق ہے کہ پاکستان نے آج تک کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے او آئی سی کا اجلاس طلب نہیں کیا، اس اہم اجلاس کی کیا وجوہات ہیں اور یہ اجلاس اس قدر اہم کیوں تھا۔؟ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس میں ستر کے قریب غیر ملکی وفود نے شرکت کی۔ 57 ممبر ممالک میں سے بیس ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے جبکہ دس ممالک کے وزرائے مملکت نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ اسی طرح مندوبین اور مبصرین جس میں یورپی یونین، اقوام متحدہ کے عہدیدار شامل ہیں، اس اجلاس میں شریک ہوئے۔

یاد رہے کہ پاکستان 40 سال بعد اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس سے قبل سنہ 1980ء میں جب پاکستان میں یہ اجلاس منعقد ہوا تھا، تب بھی توجہ کا مرکز افغانستان ہی تھا۔ یہ اجلاس بنیادی طور پر افغانستان کی معاشی مشکلات سے متعلق تھا۔ امریکہ کے اچانک افغانستان سے نکل جانے کے باعث وہاں جاری امدادی سرگرمیاں ختم ہوچکی ہیں، جس کے سبب افغانستان کی ایک بڑی آبادی مشکلات کے دہانے پر ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے نو ارب ڈالر منجمد کر دیئے ہیں، ملک میں بینکنگ کا نظام مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے، جبکہ خود افغانستان میں طالبان نے ڈالر کی بجائے افغان کرنسی استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔

دوسری جانب طالبان حکومت پر لگنے والی پابندیوں، سکیورٹی خدشات کے پیش نظر امدادی اداروں نے بھی اپنی سرگرمیاں ختم کر دی ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ خدشہ ہے کہ عالمی پابندیوں کی صورت میں فنڈز کی منتقلی یا انہیں طالبان کے زیرانتظام چلنے والے ملک میں بھیجنے کی صورت میں خود ان اداروں کو اپنے ملکوں میں سخت احتسابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں افغانستان میں تشکیل پانے والی طالبان حکومت اور افغان عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی نصف سے زائد آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور تین اعشاریہ دو ملین بچے غذائی قلت کے دہانے پر ہیں۔

امریکہ نے ستمبر میں افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد بھی امدادی سامان مہیا کرنے کے لیے کم از کم دو جنرل لائسنسز کا اجراء کیا ہے، جن کے مطابق مختلف امریکی اور امریکہ میں قائم عالمی امدادی ادارے افغانستان میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کرسکتے ہیں، تاہم اس ضمن میں شرائط واضح نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال مختلف ادارے ایسی کسی بھی مالی مدد سے گریزاں ہیں۔ بعض عالمی اداروں نے امریکی اعلان کے بعد افغانستان کے لیے مدد کے دوازے کھولے بھی ہیں۔ جیسا کہ عالمی بینک نے افغانستان کے لیے مختص ترقیاتی فنڈ میں سے رقم افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان جنرل لائسنسز کے تحت کوئی بھی رقم طالبان سے منسلک افراد یا ان کی حکومت کے حوالے نہیں کی جائے گی، نہ ہی اس رقم سے طالبان حکومت کے زیرانتظام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جائیں گی۔ یہ رقوم خوراک اور ادویات کے لیے استعمال ہوں گی۔

اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اس غیر معمولی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے معاشی بحران کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کو افغان طالبان سے علیحدہ کرکے دیکھے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ پابندیاں افغانستان کے سکولوں، ہسپتالوں اور عوام تک پہنچنے والی امداد کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ او آئی سی کے ممالک افغانستان کی صورتحال سے آگاہی کے بعد امداد کا اعلان کریں گے، تاہم پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی بھی ملک نے امداد کا اعلان نہیں کیا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ وہ افغانستان کی عوام کی مدد کے لیے ایک ارب ریال یعنی 265 ملین ڈالر امداد فراہم کریں گے۔ پاکستان اس سے قبل تقریباً 30 ملین ڈالر امداد کا اعلان کرچکا ہے۔

او آئی سی کے اس اہم غیر معمولی اجلاس میں اکیس نکات پر مشتمل قرارداد پیش کی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان کی عبوری حکومت دہشت گرد تنظیموں منجملہ داعش، القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی ایم) کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔ اس قرارداد میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ اندرونی اور بیرونی عناصر سے محتاط رہیں اور افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنائیں، جبکہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو شراکت داری پر مبنی حکومت بنانے اور اس حکومت کے ساتھ ساتھ افغان معاشرے میں افغان بچیوں اور خواتین کو شامل کرنے پر زور دیا ہے۔ اہم ترین فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک میں ایک اکاؤنٹ افغانستان کی امداد کے لیے مختص کیا جائے گا، جہاں دیگر ممالک اور عالمی ادارے رقوم منتقل کریں گے، جنھیں افغانستان میں امدادی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جانتے ہیں کچھ ایسے ممالک ہیں، جو عطیات دینا چاہتے ہیں، مگر انھیں ایک ایسے اکاؤنٹ کی ضرورت ہے، جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں، جو عطیات براہ راست نہیں دینا چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسا میکنزم ہو، جو وہ سہولت کے ساتھ استعمال کریں، اسی لیے ہم نے اسلامی ترقیاتی بینک کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اب آتے ہیں ہم اپنے سوال کی جانب کہ پاکستان جو خود مسائل سے دوچار ہے، اسے افغانستان کی اس قدر تشویش کیوں ہے۔؟ افغانستان میں جنم لینے والا کوئی بھی بحران خواہ اس کا تعلق سکیورٹی کے مسائل سے ہو یا معیشت سے، اس کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا ہے۔ اگر یہ بحران بروقت حل نہ کیا جائے تو خطے کے ممالک پر مہاجرین کا بوجھ پڑنا بدیہی ہے۔

پاکستان جس کی معیشت خود مسائل سے دوچار ہے، اس وقت کسی اضافی بوجھ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ امریکہ اور نیٹو ممالک اس وقت اپنے پیدا کردہ بحران کی ذمہ داری کو قبول کرتے اور اقوام عالم کے ہمراہ افغانستان کے عوام کے دکھوں کے مداوا کا کوئی اہتمام کرتے، تاہم انھوں نے اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور خاموش تماشائی کی مانند چلتے بنے۔ وہ جانتے تھے کہ افغانستان کا بحران خطے کے ممالک کو متاثر کرے گا۔ وہ جانتے تھے کہ اس سے سی پیک متاثر ہوگا اور یہ سب کچھ انہوں نے جان بوجھ کر کیا۔ اب خطے کے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے بروقت اقدام کریں، تاکہ افغان عوام اور پورا خطہ کسی نئے بحران سے دوچار نہ ہو جائے۔ حکومت پاکستان اس بروقت اقدام کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز