ہم سب جانتے ہیں کہ قاسم سلیمانی ایک ایرانی جرنیل تھے، انھوں نے اپنی عسکری زندگی کا آغاز عراق اور ایران کے مابین لڑی گئی جنگ میں ایک رضاکار کی حیثیت سے کیا۔ قاسم اس جنگ کے آغاز کے وقت تعمیرات کے شعبے سے منسلک تھے اور کرمان کے محکمہ آب رسانی میں بطور ٹھیکیدار کام کر رہے تھے۔ جب جنگ کا آغاز ہوا تو قاسم سلیمانی نے اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے سپاہ افتخار نامی تنظیم کی رکنیت اختیار کی۔ اس جنگ کے دوران میں ہی سردار سلیمانی نے کرمان کے عسکری دستوں پر مشتمل ایک بٹالین تشکیل دی، جو بعد میں 41 ثاراللہ بریگیڈ میں بدل گئی۔ وہ اس لشکر کی تشکیل 1982ء سے لیکر 1997ء تک اس بریگیڈ کے سربراہ رہے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں لشکر اسلام کے سردار قاسم سلیمانی اور ان کے عظیم المرتبت ساتھیوں کی برسی جس انداز سے منائی جا رہی ہے، وہ اہل فکر و نظر کے لیے نئے آفاق روشن کرتی ہے۔ پاکستان ہی نہیں غزہ کے مسلمانوں نے جس پیمانے پر شہید قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حماس کے راہنماء اسماعیل ہانیہ نے تو ان کی شہادت کے موقع پر تہران میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھیں ’’شہید قدس‘‘ قرار دے دیا تھا اور فلسطینی عوام نے بھی دل و جان سے اس حقیقت کو عملی طور پر تسلیم کر لیا۔ فلسطین کی جہاد اسلامی کے راہنماء خالد البطش نے بھی سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے جنرل سلیمانی کے بھیجے ہوئے میزائل تل ابیب پر مارے ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی کو ایک تجربہ حاصل ہوا جسے انھوں نے عالم گیر کر دیا، وہ تجربہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کا تھا۔ وہ 11 مارچ 1957ء کو ایران کے شہر کرمان ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ کرمان میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے آب رسانی کے ادارے میں ملازمت اختیار کرلی۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ فروری 1979ء میں جب وہ ابھی 22 برس کے ہونے کو تھے کہ امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا۔
سردار قاسم سلیمانی کی شخصیت اگرچہ کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اتر چکی ہے اور انھیں بجا طور پر ’’سردار دلہا‘‘ یعنی دلوں کا سردار کہا جاتا ہے، تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ ابھی تک دنیا سردار قاسم سلیمانی کو دریافت کرنے کے مرحلے میں ہے۔ ایک عظیم عبقری اور روحانی شخصیت کے پرت رفتہ رفتہ ہی کھلتے ہیں اور پھر قرنوں پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ قاسم سلیمانی بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ شہید آیت اللہ سیدباقر الصدرؒ نے امام خمینیؒ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’امام خمینی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علیؑ ایک شخص نہ تھے، جو تاریخ میں آئے اور چلے گئے بلکہ ایک شخصیت تھے جو آج بھی زندہ ہے۔‘‘ دنیا میں جب بھی بڑی شخصیات ظہور کرتی ہیں تو ان کے دمِ مسیحائی سے اور بھی بہت سے بڑے انسان ظاہر ہوتے ہیں۔
سعودی قیادت میں یمن پر جاری جارحیت چھٹے برس میں داخل ہوئی تو جارح اتحاد کی طرف سے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں مختلف مواقع پر جنگ بندی کی حقیقت پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی پہلے دن سے ہی یہ رائے تھی کہ یہ اعلان دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے اور ہوا بھی یہی۔