گذشتہ تحریر میں یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے برپا ہونے والی تحریکوں کے پیچھے جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ہوتے ہیں، جو معاشرے کے بنیادی اور عوامی مسائل پر بات کرتے ہیں، رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں اور ان کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر لاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی سوچ کا منبع ان کا تعلیمی نظام ہے، جس سے وہ نکل کر آرہے ہوتے ہیں، وہی نظام ان کے مابین نقطہ اشتراک بن جاتا ہے۔ جمہوریت، سیکولر نظام، قانون کی حکمرانی، کرپشن کا خاتمہ، عوامی مسائل پر اظہار نظر وہ چیزیں ہیں جو ان نوجوانوں اور عوام کو ایک سوچ اور محور پر لاتی ہیں۔ یوں سوشل میڈیا پر ایک خاص طرز فکر کے حامل افراد کی ایک تحریک جنم لے لیتی ہے۔۔۔
دنیا میں عوامی مظاہروں کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، دنیا کے اکثر ملکوں میں عوام حکومت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں، تاہم عوام کی زندگیوں میں اچانک کوئی ایسا لمحہ آتا ہے جس کے بعد ان کے لیے صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کام کرتی ہیں اور احتجاج یا مظاہروں کی کال دیتی ہیں تاہم 2011ء کی عرب بہار کے وقت سے احتجاجات کی دنیا میں ایک نیا طریقہ کار سامنے آیا ہے، جس میں کوئی خاص سیاسی جماعت یا گروہ مظاہروں کے پیچھے نہیں ہوتا بلکہ احتجاج کرنے والے عوام کی قیادت کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہوتا ہے۔ زیادہ تر یہ احتجاج سوشل میڈیا پر منظم ہوتے ہیں اور پھر عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔۔۔
اجتماعی اجتہاد کا موضوع ایک عرصے سے فقہی اور علمی مجالس کا عنوان بنا ہوا ہے؛ البتہ عملی لحاظ سے اس پر پیشرفت کم ہی دکھائی دیتی ہے اور زیادہ تر مسائل میں انفرادی فقہی آراء کی طرف عوام کو رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ بیشتر ریاستی قوانین ایسے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کا علما و فقہا کی طرف رجوع کم ہو گیا ہے تاہم بعض مسائل ایسے ہیں جن میں ابھی تک مفتیانِ کرام اور فقہا عظام کی طرف ہی مراجعت کی جاتی ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی ضرورت کئی پہلوو ¿ں سے بیان کی جا سکتی ہے۔۔۔