تاہم اب صورتحال یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک صوبے ميں بین المذاہب شادیوں کو روکنے کے ليے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ قانون میں ایسی شقيں شامل کی گئی ہیں کہ کوئی جوڑا، ازدواجی بندھن میں بندھ ہی نہ پائے۔ یہ قانون خصوصاً اس وقت حرکت میں آتا ہے، جب مرد مسلمان ہو۔ گذشتہ کئی برسوں سے مختلف بھارتی ریاستوں میں ہزاروں ایسے کیسز عدالتوں میں آئے ہیں، جن کے رشتے کو ’’لو جہاد‘‘ کا نام دیا ہے، تاہم تحقیقات سے ایسی کوئی منظم تحریک سامنے نہیں آ پائی، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ ملک کے اہم تحقیقاتی اداروں نے ایسی کسی منظم سازش کی نفی کی ہے۔
کرناٹک کی حکومت نے 2010ء میں کہا تھا کہ اگرچہ بہت ساری خواتین نے اسلام قبول کیا تھا، لیکن انھیں اس بات پر راضی کرنے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی تھی۔ 2012ء میں مبینہ محبت جہاد کے بارے میں دو سال کی تحقیقات کے بعد، کیرالہ پولیس نے اس کو غیر حقیقی مہم قرار دیا۔ لو جہاد کی اصطلاح 2009ء میں ہندوستان میں ملکی سطح پر توجہ کا مرکز بنی، جس کا سبب کیرالہ اور کرناٹک میں بڑے پیمانے پر مذہبی تبدیلیاں تھیں۔ بھارت میں بین المذاہب شادیوں کے علاوہ نچلی اور اعلیٰ ذاتوں کے مابین شادیاں بھی ایک مسئلہ ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے 1954ء میں سپیشل میریج ایکٹ پیش کیا گیا۔
مسلم اور ہندو کی تفریق کو گہرا کرنے کا یہ منظم منصوبہ بھارت میں مختلف نعروں کے ساتھ گذشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے۔ کرونا وبا کے وقت بھی دیکھنے میں آیا کہ بھارت میں کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے ملک کی مسلم آبادی باقی آبادی کو کورونا سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے یا مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اس سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف کورونا سے متعلق غلط معلومات کی ایک لہر چل پڑی۔ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائے جانے کا اثر یہ ہوا کہ کئی گاؤں، قصبوں اور شہروں میں مسلمان سبزی فروشوں اور دکانداروں سے سودا لینا بند کر دیا تھا۔ کئی رہائشی بستیوں میں مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے آنے پر پابندی لگا دی۔ احمد آباد کے ایک ہسپتال میں مسلم مریضوں کے لیے الگ وارڈ بنا دیا گیا اور میرٹھ کے ایک کینسر ہسپتال نے مسلم مریضوں کا کورونا کے ٹیسٹ کے بغیر علاج کرنے سے انکار دیا۔
عوام تو ایک جانب بھارتی جج بھی اس اسلامو فوبیا سے نہیں بچ پائے، میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے ایک فیصلے میں لکھ ڈالا کہ بھارت ایک اسلامی ملک بن سکتا ہے اور مودی حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہیئے، جو ایسا نہ ہونے دے۔ انہوں نے مودی حکومت کو مشورہ دیا کہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور میانمار جیسے پڑوسی ممالک میں رہنے والے غیر مسلم فرقوں اور طبقات کو بھارت آکر بسنے کی اجازت دی جائے، تاکہ اس ملک کو ایک "اسلامی ریاست" بننے سے بچایا جا سکے۔ مودی کو بھی یہ مشورہ پسند آیا اور اس نے گذشتہ برس شہریت کے قانون میں تبدیلی کر ڈالی، جس کے خلاف پورے ہندوستان کے مسلمان سراپا احتجاج رہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت ’’اے پرامسڈ لینڈ‘‘ میں بھارتی معاشرے کی تصویر کشی کیا خوبصورت انداز سے کی وہ لکھتے ہیں: ’’من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت میں کسی غیر یقینی صورتحال میں مذہبی اور نسلی یکجہتی کا غلط استعمال بھارتی سیاستدانوں کیلئے مشکل نہیں ہے۔ جنونیت اور انتہاء پسندی بھارتی معاشرے میں سرکاری اور نجی سطح پر گہرائی تک سرائیت کرچکی ہے۔ پاکستان دُشمنی بھارت میں قومی یکجہتی اُجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مجموعی طور پر بھارتی معاشرہ نسل اور قوم پرستی کے گرد مرکوز ہے۔ معاشی ترقی کے باوجود، بھارت ایک منتشر اور بے حال ملک ہے۔ بھارت بُنیادی طور پر مذہب اور قوم میں بٹا ہوا ہے۔ بھارت بدعنوان سیاسی عہدے داروں، تنگ نظر سرکاری افسروں اور سیاسی شعبدہ بازوں کی گرفت میں ہے۔" اوبامہ نے کتاب میں مزید لکھا: "انتہاء پسندی، جنونیت، بھوک، بدعنوانی، قومیت، نسلیت اور مذہبی عدم رواداری اتنی پھیل چکی ہے کہ کوئی بھی جمہوری نظام اس پر قابو نہیں پا سکتا۔"
بشکریہ: اسلام ٹائمز