سعودی عرب میں مذہب کا نیا فہم
تحریر: ثاقب اکبر
سعودی عرب سے آنے والی خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ سعودی عرب میں مذہب کا ایک نیا فہم ظہور پذیر اور فروغ پذیر ہے۔ رواں مہینے میں ہی سعودی عرب کی کونسل آف سینیئر سکالرز کے رکن شیخ عبداللہ المطلق نے کہا ہے کہ خواتین کو اعتدال والے لباس پہننے چاہئیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عبایہ پہنیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی خواتین کو عوامی مقامات پر عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی 90 فیصد نیک خواتین عبایہ نہیں پہنتیں، چنانچہ ہمیں خواتین کو عبایہ پہننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے کسی سینیئر مذہبی عالم کی جانب سے پہلی بار ایسا بیان سامنے آیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ”معتدل اسلام“ کے اس طرح کے بیان کے خلاف سعودی عرب میں ردعمل نہیں پایا جاتا بلکہ یہ ردعمل موجود ہے۔ تاہم آہستہ آہستہ سعودی معاشرہ سابقہ پابندیوں کو توڑتے یا ختم کرتے ہوئے نئی دنیا میں قدم رکھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی تک سرکاری طور پر اس فتوے کے مطابق فیصلہ نہیں کیا گیا اور عوامی مقامات پر بغیر عبایہ کے سعودی خواتین کو باہر نکلنے کی سرکاری اجازت نہیں ہے، البتہ اس طرح کے فتوے ظاہر کرتے ہیں کہ بہت جلد سرکاری سطح پر اس کی اجازت دے دی جائے گی۔ بعید نہیں ہے کہ اس طرح کا بیان سرکار کی آئندہ کی حکمت عملی کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شیخ مطلق کی یہ رائے اس اصلاحی منصوبے کا حصہ ہے، جو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی سماج کو جدید بنانے کے لئے پیش کیا گیا ہے اور جس کے نتیجے میں مختلف پہلوﺅں میں پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ چنانچہ سعودی خواتین کو 2017ء میں گاڑی چلانے کی اجازت دی جا چکی ہے۔
- مشاہدات: 221